نقطہ نظر

بلوچستان توجہ چاہتا ہے

بلوچ سیاستدان اور قانون ساز چاہے پارلیمنٹ میں جیسے بھی پہنچیں مگر اب ان کی وفاداریاں صرف اپنے عوام کے ساتھ ہونی چاہیئں۔
عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔

سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی کے فلور پر شکایت کی ہے کہ حکومت وزیرِاعظم کے انتخاب میں عمران خان کے لیے پارٹی کی حمایت کے بدلے میں بلوچوں کے اہم مسائل کے حل کے لیے بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی ایم) کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی پاس داری نہیں کر رہی ہے۔

6 نکاتی معاہدے میں لاپتہ افراد کی واپسی اور جبری گمشدگیوں کو روکنے، قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد، وفاقی ملازمتوں میں بلوچستان کا 6 فیصد کوٹہ اور بلوچستان سے افغان مہاجرین کی اپنے وطن واپسی شامل ہے۔

اس ہفتے کے آغاز میں قومی اسمبلی کے فلور پر بات کرتے ہوئے بلوچ رہنما نے کہا کہ انہیں گہری تشویش ہے کہ متفقہ نکات پر کیوں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور یہ کہ حکومت کو واضح کر دینا چاہیے کہ آیا وہ اپنے وعدے کی پاسداری کرسکے گی یا نہیں۔

بلوچ بے چینی کی ایک اور علامت کے طور پر بلوچستان اسمبلی نے متفقہ طور پر قرارداد منظور کی ہے کہ صوبے کے وسائل پر کوئٹہ کو کنٹرول دیا جائے۔ یہ قرارداد تب پیش کی گئی جب اطلاعات آئیں کہ پاکستان نے بلوچستان کو اعتماد میں لیے بغیر سعودی عرب کو سیندک اور ریکوڈک کی کانوں میں معدنیات کی تلاش کے لیے حقوق دینے کی پیشکش کی ہے۔

پڑھیے: بلوچستان کی تنہائی کا فائدہ پاکستان دشمنوں کو ہوگا

یہ قرارداد بی این پی ایم کے رکنِ صوبائی اسمبلی ثناءاللہ بلوچ نے پیش کی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ اپنی منظوری تک ایک پیشگی لائحہ عمل تھا کیوں کہ حکومت کی جانب سے ایسی کسی پیشکش کی کوئی تصدیق موجود نہیں ہے۔ اپنی جانب سے حکومت گورننس کے مسائل میں دبی نظر آتی ہے جس سے معاملات کے تصفیے میں کوئی مدد نہیں مل رہی۔

سعودی وفد کے دورے کا مقصد کیا تھا؟ اس حوالے سے مختلف اعلانات اور پھر ان میں سے کچھ 'فیصلوں' مثلاً سعودی عرب کی سی پیک منصوبوں میں شمولیت اور ریاض کو مؤخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی کی درخواست کو واپس لینے سے صرف مزید الجھن ہی پیدا ہوسکتی ہے۔

فیصلے تک پہنچنے میں یہ ناکامی اور اس سے جنم لینے والی الجھن کو تجربے کی کمی کا شاخسانہ قرار دیا جا سکتا ہے اور ہمیں امید ہے کہ جب وقت کے ساتھ کابینہ کے اہم ارکان مزید تجربہ کار ہوجائیں گے اور اپنے فیصلوں پر اعتماد کرنے لگیں گے، تو چیزیں بہتری کی جانب گامزن ہوں گی۔

مگر یہ اہم ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ اور اس کی تشویش کو وزیرِاعظم بلاتاخیر حل کریں۔ صوبے میں انسانی حقوق کی صورتحال اور دیگر اہم مسائل وزیرِاعظم کے دل کے قریب ہیں جنہیں میں کوئٹہ کے ان کے ماضی میں کیے گئے دوروں اور بیانات سے جانتا ہوں۔

مذاکرات اور کانٹے دار مسائل پر پیش رفت کے لیے گنجائش ابھی بھی موجود ہے مگر یہ بہت زیادہ نہیں ہے۔ ریاست کی جانب سے غیر منصفانہ رویے کا شکار ہونے کے باوجود اختر مینگل جیسے سیاستدانوں نے ملک کے آئینی و قانونی دائرے میں رہتے ہوئے اپنے خدشات کا اظہار اور اپنے مطالبات پیش کیے ہیں۔

ریاست کو بھی اب یہ احساس کرنا چاہیے کہ ایسا آپریشن جس میں سیکیورٹی فورسز کے خلاف انسانی حقوق کی پامالی کے سنگین الزامات لگائے گئے ہیں اور ایسی صورتحال جس میں کچھ دہشتگردوں نے بلوچ کاز کے نام پر غریب دیہاڑی دار مزدوروں کو بھی نہیں چھوڑا ہے، ہمیشہ جاری نہیں رہ سکتے۔

اس جولائی کے عام انتخابات اور اس سے پہلے مارچ میں سینیٹ انتخابات ریاست کی جانب سے اثرانداز ہونے اور ایسا بالخصوص بلوچستان میں ہونے کا عملی مظاہرہ ہیں۔

بلوچستان سے جو سینیٹر مارچ میں منتخب ہوئے (اور بعد میں ضمنی انتخاب میں جو منتخب ہوئے) ان میں انوار الحق کاکڑ جیسے بلیغ اور مایہ ناز افراد بھی تھے جو صوبائی حکومت کے ترجمان ہوا کرتے تھے اور انہوں نے وہاں کریک ڈاؤن کا زبردست دفاع کیا تھا۔

مزید پڑھیے: کوئٹہ کا روشن اور چمکتا چہرہ ہمیں کیوں نہیں دکھایا جاتا؟

غیر معروف صادق سنجرانی کو نہ صرف بلوچستان سے سینیٹر منتخب کیا گیا بلکہ چیئرمین سینیٹ بھی مقرر کردیا گیا۔ اس کے بعد سرفراز بگٹی کی باری آتی ہے جن کے پاس متخصر وقت کے لیے ایسے موقع پر وزارتِ داخلہ کا قلمدان تھا جب آپریشن جاری تھا اور جب دراندازی کو کچلنے کے لیے ظالم ترین اور انتہائی سخت گیر اقدامات کے دفاع کی بات آتی تو سرفراز بگٹی ہمیشہ پیش پیش نظر آتے۔

کہا جاتا ہے کہ زیادہ تر پاکستانی سیاستدانوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز فوج کی گود سے کیا ہے۔ اگر اس دورانیے کو دیکھا جائے جب ملک بالواسطہ یا بلاواسطہ فوجی حکومت کے ماتحت رہا ہے تو اس بات پر کوئی حیرانی نہیں ہوتی۔

مگر جو چیز اہم ہے وہ یہ کہ کس طرح کچھ سیاستدانوں کی ارتقاء دوسروں سے مختلف رہی ہے۔ مثال کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو نے شاید اپنا کیریئر فیلڈ مارشل ایوب خان کے زیرِ سایہ شروع کیا مگر بعد میں وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے ’اسٹیٹس کو‘ کو چیلنج کیا اور اس دوران زبردست عوامی حمایت حاصل کی اور شہرت کی ایسی بلندیوں کو پہنچے جن تک 5 دہائیوں میں شاید ہی کوئی سیاستدان پہنچا ہے۔ درحقیقت ان کی مقبولیت نے چیف آف آرمی اسٹاف کو اس قدر پریشان کردیا کہ نہ صرف انہیں معزول کردیا گیا بلکہ ایک فریبی ٹرائل کے بعد انہیں پھانسی بھی دے دی گئی۔

نواز شریف کو دیکھیں جن کا بطور سیاستدان واحد مقصد جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت کا جونیئر پارٹنر بننا اور بینظیر بھٹو کو اقتدار میں آنے سے روکنا تھا اور انہوں نے یہ کافی حد تک کیا بھی۔ مگر ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ نواز شریف کس طرح سال در سال تبدیل ہوئے ہیں خاص طور پر تب جب انہیں خود کے مقرر کردہ آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے برطرف کردیا تھا جس کے بعد انہیں کئی سالوں تک ملک سے باہر رہنا پڑا تھا۔

پڑھیے: ریکوڈک کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں گے، وزیراعلیٰ بلوچستان

جب بھی ہم ریاست کی غلطیوں کی بات کریں تو اسلام آباد/راولپنڈی کے حامی ایک بلوچ رہنما کی پہلے بلوچ حقوق کی تحریک کے مرکزی کردار میں جبری تبدیلی اور پھر اسی مقصد کے لیے جان دینا فہرست میں سب سے اوپر آئے گا۔

یہ سیدھے راستے سے ہٹنا نہیں تھا۔ یہ تمام بلوچ سیاستدانوں اور قانون سازوں کی ذمہ داری ہے کہ چاہے وہ پارلیمنٹ میں جیسے بھی پہنچے ہوں، مگر اب ان کی وفاداریاں صرف اپنے عوام کے ساتھ ہونی چاہیئں۔

وہ لوگ جو غیر مقبول مقاصد کو بلاغت سے بیان کرنے کی صلاحیت اور جوش و جذبہ رکھتے ہیں انہیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ بلوچ حقوق پر ان کی خاموشی سے انہیں ان کے پشت پناہوں سے اضافی پوائنٹس تو حاصل ہوجائیں گے مگر بلوچ شاید انہیں معاف نہ کریں۔

ہاں آپ مجھے ان لوگوں کے اٹھ کھڑے ہونے کی امید رکھنے پر تنقید کا نشانہ بنا سکتے ہیں مگر میں مایوسی کے سمندر میں ڈوبنے کے بجائے پُرامید رہ کر تیرنا پسند کروں گا۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 6 اکتوبر 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

عباس ناصر

عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abbas.nasir@hotmail.com ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abbasnasir59@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔