پاکستان

میں نے تو نیسلے کا پانی پینا ہی چھوڑ دیا، چیف جسٹس

نیسلے اتنی بڑی کمپنی ہے اور اس کا پانی بھی حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق نہیں، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار
|

چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے پینے کے پانی کی مہنگے داموں فروخت کے خلاف ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ 'میں نے تو نیسلے کا پانی پینا ہی چھوڑ دیا ہے، لوگوں کو پتہ چلنا چاہیے کہ نیسلے کا پانی ٹھیک نہیں'۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے پینے کے پانی کی مہنگے داموں فروخت کے خلاف از خود نوٹس کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں ہونے والی سماعت کے دوران نیسلے منرل واٹر کمپنی کا فرانزک آڈٹ کروانے کا معاملہ زیر غور آیا، جس میں عدالت نے آڈیٹر جنرل پنجاب کو فوری طلب کر لیا اور ساتھ ہی نیسلے کمپنی کی چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) کو بھی پیش ہونے کا حکم دیا۔

بعد ازاں نیسلے کمپنی کی جانب سے بیرسٹر اعتزاز احسن عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ عدالتی حکم کے مطابق کمپنی کے ریکارڈ کے 81 ڈبے سپریم کورٹ پہنچا دیے ہیں۔

مزید پڑھیں: 'ڈیم روکنے کی کوشش کرنے والوں کےخلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی ہوگی'

اس موقع پر چیف جسٹس نے اعتزاز احسن سے کہا کہ آپ نے عدالتی آڈیٹر پر اعتراض اٹھایا ہے، جس پر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ ظفر کلانوری ایڈووکیٹ کو ان کی خواہش کے مطابق عدالتی معاون مقرر کیا گیا۔

اس پر ظفر کلانوری ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اعتزاز احسن نے ملٹی نیشنل کمپنی کی وکالت میں اپنے تعلقات خراب کیے ہیں۔

اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ عدالتی آڈیٹر کی ڈگری پر اعتراض اٹھایا تھا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کمپنی کی سی ای او طلبی کے باوجود پیش نہیں ہوتیں، بلائیں ان کو وہ آڈٹ کے دوران یہیں رہیں گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ میں 2 چیمبر دے دیتے ہیں اور صرف ایک واش روم کی سہولت فراہم کریں گے، جس پر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ کمپنی کی مالک کو بلا کر آڈٹ کے لیے بٹھانا مناسب نہیں اور عدالت سے استدعا کی کہ کمپنی کے چیف فنانس آفیسر کو آڈٹ کے لیے مقرر کر دیں۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ آپ کے ریمارکس کی وجہ سے پراپرٹی کی ویلیو پہلے ہی 50 فیصد تک گرگئی ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیسلے پانی فروخت کر کے ایک پیسے کا چوتھا حصہ سرکاری خزانے میں جمع کروا رہا ہے، اتنی بڑی کمپنی ہے اور اس کا پانی بھی حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق نہیں۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ میں نے تو نیسلے کا پانی پینا ہی چھوڑ دیا ہے، جس پر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ آپ کے یہ ریمارکس بڑے چلیں گے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہاں تو لوگوں کو پتہ چلنا چاہیے کہ نیسلے کا پانی ٹھیک نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: صاف پانی از خود نوٹس: معاملے کی تحقیقات نیب کے حوالے کرنے کا انتباہ

اس موقع پر فوڈ اتھارٹی کے ڈی جی نے عدالت کو بتایا کہ نیسلے کی پانی کی بوتل پر درج اجزا درحقیقت پانی میں موجود نہیں ہیں، نیسلے پنجاب فوڈ اتھارٹی میں رجسٹر بھی نہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتائیں کتنا میگنیشیم آپ نے مارکیٹ سے خریدا ہے؟ ایک ٹکا بھی سرکار کو نہیں دیتے، ابھی آڈیٹر جنرل پنجاب کو بلا رہا ہوں۔

بعد ازاں نیسلے کمپنی کی چیف ایگزیکٹو آفیسر عدالت میں پیش ہوئیں۔

علاوہ ازیں عدالت نے پاکستان کی تمام منرل واٹر کمپنیوں کو نوٹس جاری کر دیے، عدالت نے تمام صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کیے اور ریمارکس دیے کہ ایڈووکیٹ جنرلز بھی آکر بتائیں کہ کیا نرخ ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ منرل واٹر کمپنیوں کی جانب سے فی لیٹر 0.2 پیسے کی ادائیگی کوئی ریٹ نہیں، کم از کم نرخ 50 پیسے یا 1 روپیہ فی لیٹر ہونا چاہیے، ماہرین کی کمیٹی بھی بتائے کہ کمپنیوں کے لیے کیا نرخ مناسب ہو گا، پانی ملک کا سب سے بڑا ریسورس ہے جو مفت میں دیا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیسلے کمپنی کرائے کی جگہ لے کر وہاں سے مفت کا پانی بیچ رہی ہے، منرل واٹر کمپنیوں نے اربوں روپے کمائے، نیسلے 25 سال سے پاکستان میں کام کر رہی اور پانی کی رقم ادا نہیں کی۔

مزید پڑھیں: صاف پانی کمپنی کیس: شہباز شریف کو عدم پیشی پر دوبارہ طلبی کا نوٹس

اس موقع پر کیس کے معاون ظفر کلانوری ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ نیسلے نے 3 سال میں 2.7 بلین لیٹر پانی استعمال کیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سیلز ٹیکس تو آپ ادا کرتے ہیں اور پانی کی صورت میں خام مال کے استعمال پر ٹیکس کس نے دینا ہے؟ ہم گھروں پر گشت کرکے پانی بچارہے ہیں اور آپ کرائے کی جگہوں سے پانی نکال کر بیچ رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ پورٹ قاسم والی فیکٹری کا بھی دورہ کروں گا کہ وہ پانی کہاں سے لے رہے ہیں اور ساتھ ہی حکم دیا کہ اکاؤنٹنٹ جنرل پنجاب فرانزک آڈٹ کے لیے ٹیم تشکیل دے کر رپورٹ پیش کریں۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید کارروائی آئندہ جمعرات تک ملتوی کر دی۔