ریپ کا نشانہ بننے والی عراقی لڑکی اور کانگو کے کارکن کیلئے امن کا نوبل انعام
دنیا کا سب سے معتبر ایوارڈ دینے والی سوئیڈن کی سوئیڈش اکیڈمی آف نوبل پرائز نے ‘امن کا انعام’ کئی سال تک ریپ کا نشانہ بننے والی عراقی لڑکی سمیت ریپ کے خلاف آواز اٹھانے والے افریقی سماجی کارکن کو دینے کا اعلان کردیا۔
کمیٹی کے مطابق 2018 کا امن کا نوبل انعام عراق کے یزیدی کرد قبیلے سے تعلق رکھنے والی 25 سالہ نادیہ مراد اور افریقی ملک کانگو کے ریپ، تشدد اور جنسی جرائم کے خلاف آواز اٹھانے والے 63 سالہ سماجی کارکن ڈینس میکویج کو دیے جائے گا۔
یہ دوسرا موقع ہے کہ امن کے نوبل انعام کے لیے دوسری بار کم عمر لڑکی کو نامزد کیا گیا ہے، اس سے قبل 2014 میں پاکستانی لڑکی ملالہ یوسف زئی کو یہ انعام دیا گیا تھا۔
ملالہ یوسف زئی کو محض 17 سال کی عمر میں نوبل کا انعام دیا گیا تھا، ان کے ساتھ 61 سالہ بھارتی سماجی کارکن کیلاش سدھیارتھی کو یہ انعام دیا گیا تھا۔
اس بار 2018 میں بھی نوبل کا انعام 25 سالہ عراقی سماجی کارکن نادیہ مراد اور 63 سالہ کانگو کے سماجی کارکن ڈینس میکویج کو دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فزکس کا نوبل انعام خاتون سمیت 3 سائنسدانوں کے نام
نادیہ مراد کم عمری میں نوبل انعام حاصل کرنے والی دوسری شخصیت بن گئیں۔
نادیہ مراد عراق کے یزیدی کرد قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں، 2003 میں امریکا کی جانب سے عراق پر حملے کے وقت ان کے خاندان کے کچھ افراد مارے گئے، وہ اس وقت انتہائی کم عمر تھیں۔
جب نادیہ مراد کی عمر 19 برس تھی، تب دہشت گرد تنظیم داعش نے ان کے گاؤں پر حملہ کرکے 600 افراد کو قتل کردیا، جن میں سے ان کے بھائی اور دیگر اہل خانہ بھی شامل تھے۔
اسی حملے کے دوران نادیہ مراد سمیت دیگر متعدد نوجوان لڑکیوں کو اغوا کرکے جنسی کاروبار کے لیے استعمال کیا گیا۔
نادیہ مراد کم سے کم 3 سال تک داعش سمیت دیگر جنگجو گروپوں کے دہشت گردوں کے ہاتھوں جنسی کاروبار کے تحت فروخت ہوتی اور ریپ کا نشانہ بنتی رہیں۔
بعد ازاں نادیہ مراد 2015 میں کسی طریقے سے داعش کے قبضے سے بھاگنے میں کامیاب ہوگئیں۔