آرمی پبلک اسکول ازخود نوٹس:سپریم کورٹ کا تحقیقات کیلئے کمیشن بنانے کا حکم
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سانحہ آرمی پبلک اسکول کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کی۔
لواحقین کی جانب سے اجون خان ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں لواحقین سے معذرت خواہ ہوں کہ میں نے کمیشن کے قیام کا زبانی حکم جاری کیا لیکن تحریری حکم جاری نہ کر سکا، اس وقت صورتحال ایسی تھی کہ پشاور بینچ ٹوٹ گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ میں آپ کے سامنے ابھی کمیشن کی تشکیل کا حکم جاری کرتا ہوں جس میں تاخیر نہیں ہوگی۔
چیف جسٹس نے لواحقین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم آپ کے دکھ میں برابر کی شریک ہے اور آپ کو انصاف ملے گا، جبکہ میں خود 16 اکتوبر کو اے پی ایس پشاور کا دورہ کروں گا۔
عدالت نے کمیشن کی تشکیل کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ سینیئر جج پر مشتمل کمیشن بنائیں جو 6 ہفتے میں تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ جمع کروائے۔
یہ بھی پڑھیں: سانحہ آرمی پبلک اسکول ازخود نوٹس کی سماعت مقرر
چیف جسٹس آف پاکستان کے کمیشن بنانے کے حکم پر لواحقین کمرہ عدالت میں فرط جذبات میں رو پڑے۔
لواحقین کا کہنا تھا کہ ہمیں یقین ہے کہ اب ہمیں اپنے بچوں کے خون کا حساب ملے گا۔
عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہدائے آرمی پبلک سکول کے لواحقین نے کہا کہ آج انصاف کا بول بالا ہو گیا جبکہ آج ہمارے بچوں کا نیا جنم ہوا ہے۔
یاد رہے کہ چیف جسٹس نے سانحہ اے پی ایس سے متعلق ازخود نوٹس اس وقت لیا تھا جب کچھ شہید بچوں کے والدین نے چیف جسٹس سے اسی حوالے سے ایک کیس کی سماعت کے دوران فریاد کی تھی۔
اس موقع پر شہید طالب علم اسفند خان کی والدہ اے پی ایس شہیدوں کے حوالے سے مسائل چیف جسٹس کو سناتے ہوئے رو پڑیں تھیں۔
مزید پڑھیں: آرمی پبلک اسکول حملہ: سپریم کورٹ کا وفاقی اور صوبائی حکومت کو نوٹس
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے آج تک اپنے بیٹے کو تھپڑ نہیں مارا تھا جب کہ دہشت گردوں نے ان کے بیٹے پر 6 گولیاں چلائیں۔
تقریباً تمام ہی متاثرین نے شکایت کی کہ حملوں سے چند ہفتوں قبل قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) نے دہشتگردوں کے منصوبے کے حوالے سے اطلاع دے دی تھی تو اس کو روکنے کے لیے اقدامات کیوں نہیں کیے گئے۔
والدین نے مطالبہ کیا تھا کہ اس معاملے میں ایک غیر جانبدار جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے تاکہ اسے نظر انداز کرنے والے متعلقہ حکام کو سبق سکھایا جاسکے۔