خالد اقبال: ایسا مست آدمی جو زندگی میں کسی چیز سے متاثر نہیں ہوا
خالد اقبال: ایسا مست آدمی جو زندگی میں کسی چیز سے متاثر نہیں ہوا
’وہ شاکر علی کا بڑا گہرا دوست تھا۔ میں ہنستا تھا کہ یار نہ تم بولتے ہو، نہ وہ بولتا ہے تو پھر تم لوگ دوست کیسے ہو؟ کیا باتیں کرتے ہو؟ شاکر مسکرا دیتا تھا۔ ان دنوں پاک ٹی ہاؤس میں بڑی رونقیں ہوتی تھیں۔ میں جب بھی وہاں بیٹھے بیٹھے کچھ لکھتا تو اس کے نیچے ایسے ہی قلم سے کوئی خاکہ بنا دیا کرتا تھا۔
’ایک دن شاکر علی نے میری ڈرائنگ دیکھی تو کہنے لگا کہ تم خالد اقبال کے پاس چلے جاؤ، وہ ادھر پرنسپل بھی ہے، تم آرٹ اسکول میں داخلہ لے لو اور اس سے باقاعدہ تصویر بنانا سیکھو۔ میں چلا گیا۔ اب پہلے ہی دن جب میں جا کر وہاں بیٹھا تو اس نے مجھے سکھایا کہ تصویر بنانے کے لیے سبجیکٹ کو دیکھتے کیسے ہیں۔ وہ کہنے لگا کہ دیکھو یہ آدمی ہے، اسے اب اس طرح سے دیکھنا ہے۔ یہ اس کا سر ہے، یہ اس کی گردن ہے، یہ سیدھا بازو ہے یہ ایک اور حصہ ہے۔
’میں نے کہا کہ میں تو اسے ایسے نہیں دیکھ سکتا، میرے لیے تو پورے کا پورا آدمی ہے، میں تو اگر اس کی تصویر بناؤں گا تو بس ایسے ہی پورے آدمی کی بنا دوں گا۔ اس نے کہا کہ بھئی تم تصویر بنانا نہیں سیکھ سکتے، تم بہتر ہوگا وقت ضائع نہ کرو اور جاؤ یہاں سے۔‘
اب زاہد ڈار کی آنکھیں اور چہرہ دونوں مسکرا رہے تھے۔ کیفیت ایسی تھی جس طرح کوئی اسکول سے بھاگنے والا بچہ اپنی کامیابیوں کی داستان سنا بھی رہا ہو اور اس سے مزے بھی لے رہا ہو۔ ’تو بس پھر میں ڈرائنگ بھی نہیں سیکھ پایا اور بڑے آرام سے واپس اٹھ آیا۔ پھر بعد میں وہ خاکے بنانا میں نے چھوڑ ہی دیے۔‘
یہاں سے فقیر کی اپنی کہانی شروع ہوتی ہے۔ لاہور میں ٹرانسفر ہوئے مجھے ایک آدھ برس ہوا ہوگا۔ دفتر سے فارغ ہوکر ماڈل ٹاؤن میں گھومتے رہنا میری عادت تھی۔ اصل وجہ یہ تھی کہ مجھے وہاں موجود گھروں کے باہر لگے ہوئے پودے دیکھنا اچھا لگتا تھا۔ جس گھر کے باہر اچھے پودے نظر آتے، ایک نظر دیکھتا اور گاڑی آگے بڑھا لیتا۔ اچانک ایک جگہ کیکٹس کے 2 سے 3 درخت نظر آئے۔ پہلے تو یقین ہی نہیں آیا کہ پاکستان میں کیکٹس اتنا زیادہ کیسے پھل پھول سکتا ہے اور اگر بڑھ بھی جائے تو پھر یہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ ایسا کون شخص ہے جس نے باغ کا ایک پورا گوشہ ہی کانٹے دار پودوں کے لیے مخصوص کردیا ہے؟
گاڑی روکی اور لوہے کے بڑے سے دروازے کے سامنے ایک کونے میں لگا دی۔ کارنر پلاٹ والے اس گھر کا جتنا دروازہ کھلا تھا اس میں سے اندر جھانکا تو سامنے ایک منزلہ عمارت تھی۔ ایسی بلڈنگ جو انگریزوں والے تعمیراتی بائی لاز کے تمام کھاتے پورے کرتی تھی۔ وہ پرانے طرز کی بنی ہوئی ایک کوٹھی تھی جس کے چاروں طرف نسبتاً اجاڑ سا باغ تھا لیکن اس میں پائے جانے والے کیکٹس اور یوکا وغیرہ پوری موج میں تھے۔
وہاں سے تقریباً 40 قدم دُور سامنے 2 یا 3 سیڑھیاں تھیں اور ان کے آگے برآمدہ تھا۔ جاتی سردیوں کی دھوپ نکلی ہوئی تھی اور آئن اسٹائن نما ایک بزرگ ایزل پر لینڈ اسکیپ ٹانگے اسے مکمل کر رہے تھے۔ کافی دیر تو اندر جانے کی ہمت ہی نہیں ہوئی کہ پرائے گھر میں ایسے کیسے گھسا جا سکتا ہے؟ پھر کیکٹس کا درخت دیکھنے کے شوق میں ہمت کی اور اندر چلا گیا۔ بزرگ سے چند قدم دُور قدم روک لیے۔ کافی دیر انہیں دیکھتا رہا۔ تصویر دیکھی جو شاید کوئی لینڈ اسکیپ تھا۔