پاکستان

سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس اختیار پر چیف جسٹس اور اعتزاز احسن میں مکالمہ

ازخود نوٹس کے اختیار سے وہ ہی لوگ نالاں ہیں جن کی زمینوں اور دیگر معاملات کے کھاتے کھُل رہے ہیں، چیف جسٹس کے ریمارکس
|

سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کیس کے خلاف نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ جن کی زمینوں اور دوسرے معاملات کے کھاتے کھل رہے ہیں وہ ہی لوگ از خود نوٹس کے اختیار سے نالاں ہیں۔

بحریہ ٹاؤن کیس کے خلاف نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران دلچسپ صورت حال اس وقت سامنے آئی جب چیف جسٹس اور سینئر وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن کے درمیان از خود نوٹس کے حوالے سے مکالمہ ہوا۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ بحریہ ٹاؤن کیس کے خلاف دائر نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کررہا تھا، اس دوران اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ عدالت کے 184 (3) کے اختیار سے بہت سے لوگ نالاں ہیں۔

اعتزاز احسن نے چیف جسٹس سے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے کے اختیار سے متعلق آئین کی شق میں ترمیم لانا چاہتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا جا سکا۔

اعتزاز احسن نے چیف جسٹس سے استدعا کی کہ عدالت خود آئین کی شق 184 (3) کے تحت اپنے رولز میں ترامیم کرے ۔

وکیل نے دلیل دی کہ از خود نوٹس کیس کے فیصلے پر نظرثانی کی بجائے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: ’بحریہ ٹاؤن کو دھوکے سے زمین دی گئی، چاندی دے کر سونا لے لیا گیا‘

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جن کی زمینوں اور دوسرے معاملات کے کھاتے کھل رہے ہیں وہ ہی لوگ از خود نوٹس کے اختیار سے نالاں ہیں۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ اپنی طاقت کا استعمال کریں اور پارلیمنٹ 184 (3) کی آئینی ترمیم کو واپس کرلیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ اپنا اختیار استعمال کرکے دیکھ لے گی کہ انہیں یہ اختیار تھا بھی یا نہیں۔

خیال رہے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن کی نظرثانی کیس کی سماعت کی، اس دوران بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض، سینئر وکیل اعتزاز احسن، وکیل علی ظفر اور دیگر پیش ہوئے تھے۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے تھے کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کو زمین دھوکے بازی سے دی گئی اور چاندی دے کر سونا لے لیا گیا۔

دوران سماعت وکیل بحریہ ٹاؤن علی ظفر نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کے پاس ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) کی 18 ہزار کینال زمین ہے، بحریہ ٹاؤن 5 ارب دینے کو تیار ہے اور مزید اقدامات بھی کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کیس: ’زمین کی الاٹمنٹ میں بدنیتی نکلی تو پورا ڈھانچہ گر جائے گا‘

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بحریہ ٹاؤن کے جہاز میں پھر رہے ہیں اور آپ نے جہاز کو ٹیکسی بنایا ہوا ہے، اس پر علی ظفر نے کہا کہ آپ ہرجانہ طے کردیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم عملدرآمد بینچ ہیں، اس سے ایک پیسہ کم نہیں ہوگا، اگر نہیں دے سکتے تو میرٹ پر بحث کریں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ پر جرمانہ کردیتے ہیں، ہزار ارب دے دیں، جس پر ملک ریاض نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن میں کل سرمایہ کاری 437 ارب روپے کی ہے، ہزار ارب کیسے ادا کروں۔

ملک ریاض نے بتایا تھا کہ سندھ میں زمین کے تبادلے کا قانون 1982 سے موجود ہے اور 70 کے قریب زمینوں کے تبادلے ہوئے ہیں۔

ملک ریاض نے بتایا کہ بحریہ ٹاؤن نے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ساتھ 4 دیہات کا تبادلہ کیا اور ان تبادلوں کی مد میں 4 ارب سرکاری خزانے میں جمع کرائے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو پانی کے بلوں کی مد میں 36 کروڑ روپے جمع کرائے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 1500 ارب روپے سے ڈیم بنتا ہے، آپ بنا دیں۔

مزید پڑھیں: نیب کا بحریہ ٹاؤن کراچی پر 90ارب روپے کی زمین پر قبضے کا الزام

ملک ریاض نے کہا کہ ایک روپے کی چیز کے 10 روپے کیوں ادا کروں؟ عدالت سے ہاتھ جوڑ کر استدعا کرتا ہوں رحم کرے، میں پہلے ہی 7 ارب روپے جمع کروا چکا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اگر عدالت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو متحرک کیا تو لاکھوں لوگ بے روزگار ہوجائیں گے اور سب کچھ ٹھپ ہو جائے گا۔