پاکستان

پنجاب اسمبلی میں عثمان بزدار کے خلاف قرارداد، استعفیٰ کا مطالبہ

ڈی پی او پاک پتن کا تبادلہ وزیراعلی آفس کی مداخلت پر ہوا انکوائری کے مطابق وزیراعلی پنجاب صادق اور امین نہیں رہے، متن
|

لاہور: ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) پاک پتن کے تبادلے کے معاملے میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے مبینہ طور پر ذمہ دار ہونے کے خلاف پنجاب اسمبلی میں ان کے استعفیٰ کے لیے قرارداد جمع کروادی گئی۔

صوبائی اسمبلی میں مذکورہ قرارداد پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے پارلیمانی رہنما حسن مرتضیٰ کی جانب سے جمع کروائی گئی۔

قرار داد میں کہا گیا کہ ڈی پی او پاک پتن کے تبادلے پر سپریم کورٹ کی قائم کردہ انکوائری کمیٹی کی پیش کردہ رپورٹ میں وزیراعلیٰ پنجاب قصور وار پائے گئے اورانسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) کلیم امام ربڑ اسٹیمپ اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ثابت ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈی پی او تبادلہ کیس: کلیم امام نے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کا کردار ادا کیا، رپورٹ

قرار داد میں مزید کہا گیا کہ ڈی پی او پاک پتن کا تبادلہ وزیراعلیٰ آفس کی مداخلت پر ہوا چنانچہ انکوائری رپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب صادق اور امین نہیں رہے۔

قرار داد میں مطالبہ کیا گیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب فوری مستعفی ہوں اور ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 62 ایف ون کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے۔

اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ پولیس کو غیر سیاسی کرنے کے دعویداروں کی قلعی کھل چکی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس کی سماعت ہوئی تھی جس میں نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی(نیکٹا) کے کوآرڈینیٹر خالق داد لک نے 25 صفحات پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹ پیش کی تھی۔

رپورٹ میں احسن جمیل گجر کو واقعے کا ذمہ دار قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ پولیس حکام کے ساتھ دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا گیا۔

مزید پڑھیں: ڈی پی او تبادلہ کیس: چیف جسٹس کا ازسر نو تحقیقات کا حکم

رپورٹ کے مطابق ڈی پی او رضوان گوندل کے تبادلے کے لیے وزیراعلیٰ ہاؤس نے کردار ادا کیا اور یہ تبادلہ انتہائی عجلت میں کیا گیا۔

عدالت میں پیش کردہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ڈی پی او کی تبدیلی میں سابق آئی جی پنجاب اور موجودہ آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام نےصرف ربڑ اسٹیمپ اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کا کردار ادا کیا۔

سپریم کورٹ میں پیش کردہ رپورٹ کے مطابق ٹیلی فونک ریکارڈ سے واضح ہوتا ہے کہ ڈی پی او پاکپتن کا بیان درست ہے، وزیراعلی ٰ نے 28 تاریخ کو غیر مناسب وقت پر ڈی پی او کا تبادلہ کیا۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ وزیر اعلیٰ کو کہیں کہ وہ رپورٹ پر اپنا جواب دیں، انہیں یہ بھی کہیں کہ آرٹیکل 62 ون ایف کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے تعویز کے طور پر باندھ لیں۔

یہ بھی پڑھیں: ڈی پی او تبادلہ کیس: احسن جمیل گجر نے غیر مشروط معافی مانگ لی

اس موقع پر عدالت نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے 3 دن میں جواب طلب کیا تھا اور رپورٹ کی کاپی وزیر اعلیٰ پنجاب اور آئی جی کلیم امام کو ارسال کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی تھی۔

کیس کا پس منظر

23 اگست کو خاتون اول بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور فرید مانیکا کو مبینہ طور پر روکنے والے ڈی پی او رضوان گوندل کا تبادلہ کردیا گیا تھا۔

بعد ازاں رپورٹس کے مطابق خاور فرید مانیکا نے غصے میں ایلیٹ فورس کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی تھی اور ڈی پی او رضوان عمر گوندل کو ڈیرے پر آکر معافی مانگنے کا کہا تھا جس پر انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اس میں پولیس کی کوئی غلطی نہیں ہے۔

ڈی پی او رضوان عمر گوندل نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو بھی خاور فرید مانیکا سے معافی مانگنے سے انکار کے اپنے مؤقف سے آگاہ کردیا تھا۔

27 اگست کو پنجاب پولیس کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے ان کا تبادلہ کردیا گیا، جس کے بعد اوکاڑہ کے تحقیقاتی افسر شاکر احمد شاہد کو پاکپتن کے ڈی پی او کا اضافی چارج دے دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: خاور مانیکا کو روکنے پر ڈی پی او کا تبادلہ؟

علاوہ ازیں آئی جی پنجاب ڈاکٹر سید کلیم امام نے معاملے پر وضاحت دیتے ہوئے کہا تھا کہ ڈی پی او کا تبادلہ کسی دباؤ پر نہیں بلکہ واقعے کے متعلق غلط بیانی کرنے پر کیا گیا۔

آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ شہری سے اہلکاروں کی بدتمیزی پر ڈی پی او نے غلط بیانی سے کام لیا، ٹرانسفر آرڈر کو غلط رنگ دینے، سوشل میڈیا پر وائرل کرنے پر رضوان گوندل کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا گیا۔

بعد ازاں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے کے معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔