مقامی طور پر تیار کی گئی گاڑی کے مالکان کو کس کس طرح تنگ کیا گیا؟
مقامی طور پر تیار ہونے والی پاکستان کی پہلی گاڑی پروفیشینٹ (Proficient) کے سامنے موجود مسائل پاکستان میں دوسرے انٹرپرینیئورز کے سامنے موجود مسائل جیسے ہی ہیں جس سے ایک بار پھر ثابت ہوتا ہے کہ تاخیری حربوں اور نااہلی پر کاربند بیوروکریسی صنعتی ترقی اور خود انحصاری میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
دُور سے دیکھیں تو یہ کراچی کی سڑکوں پر دوڑتی کئی دیگر سوزوکی گاڑیوں کی طرح ہی نظر آتی ہے۔ مگر قریب سے دیکھنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ ہیڈ لائٹس اور اگلی جالی تھوڑی سی مختلف ہیں اور غیر یقینی کیفیت فخر میں تب بدلتی ہے جب اس کے تیار کنندہ فخریہ انداز میں اگلی سیٹ اٹھا کر نیچے موجود انجن دکھاتے ہیں جس پر گاڑی کا نام 'پروفیشنٹ' جلی حروف میں لکھا ہوا ہے۔ کئی اخباری اشتہارات کے باوجود کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ یہ گاڑی مکمل طور پر پاکستان میں تیار شدہ ہے۔
مگر کراچی کی پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی میں اپنے وِنمارک انڈسٹریز کے دفتر میں بیٹھے ہوئے اس گاڑی کے تیار کنندہ خلیل الرحمٰن نارتھ کراچی کے دُور دراز صنعتی علاقے میں اپنی فیکٹری لوگوں کو دکھانے کے لیے زیادہ پُرجوش نظر نہیں آتے۔ وہ کہتے ہیں کہ زیادہ تر لوگ اس گاڑی کی تیاری کا زمانہ قدیم کا طریقہ دیکھ کر بہت حیران رہ جاتے ہیں۔ شہر کی ٹریفک سے الجھتے ہوئے اور کچی آبادیوں کی تنگ گلیوں سے گزرنے کے بعد بھی فیکٹری اب بھی کوئی چوتھائی میل دُور ہے جبکہ اس تک پہنچنے کے لیے کوئی کچا راستہ بھی موجود نہیں۔
فیکٹری 2 ہزار گز کے پلاٹ پر بنی ہوئی ہے جس کی چار دیواری ہے اور ایک اینٹوں کی بنی ہوئی ایک بے رنگ 3 منزلہ عمارت اس پلاٹ کے بیچ میں قائم ہے۔ اس کے اگلے صحن کو باآسانی آپ شہر بھر میں موجود ڈینٹنگ پینٹنگ کی ہزاروں دکانوں میں سے ایک سمجھ سکتے ہیں۔ ایک کونے میں چیسز کی کٹائی اور ویلڈنگ ہو رہی ہے تو دوسرے کونے میں ہتھوڑوں کی ضربوں سے ڈرائیور کے کیبن کی ساخت بنائی جا رہی ہے۔ چیزیں اٹھانے اور دوسری جگہ پہنچانے کا سارا کام ہاتھ سے کیا جاتا ہے جبکہ گیس ویلڈنگ کا آلہ ہی یہاں موجود سب سے جدید اوزار ہے۔