خط کے لفافے پر ٹکٹ لگاتے لگاتے اُس کی یادداشت جیسے ختم ہی ہوگئی ہے، اُسے سب کچھ بھول گیا حتیٰ کہ یہ بھی کہ لفافے پر لگائے اِن 2 ٹکٹوں کا مطلب کیا ہے۔
جیسے بلب جل رہا ہو، روشنی ہو اور یکبارگی ہی اندھیرا چھا جائے۔
اُس نے لفافے کو دیکھا پھر اپنے ہاتھوں کو، اُسے سمجھ نہ آئی کہ اُس کا یہاں آنے کا مقصد کیا تھا اور اٹھ کر کھڑکی تک آیا جہاں ڈاک خانے کا ملازم خط کے لفافوں پر مہریں لگارہا تھا۔
’وہ بات سنیں، یہ دیکھیں‘ یہ کہہ کر اُس نے خط کا لفافہ ملازم کے سامنے کرکے اُسے دکھایا۔
ملازم نے خط کے لفافے کی جانب دیکھا اور کہا۔
’میں نے آپ کو 3 ٹکٹ دیے تھے، دو 15 روپے والے اور ایک 10 روپے والا ٹکٹ، آپ اس خط پر تینوں ٹکٹ لگائیں، تیسرا ٹکٹ آپ نے اب تک اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے، اسے بھی لفافے پر لگائیں، دوسرے شہر میں ڈاک 40 روپے میں جاتی ہے۔‘