سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس: سابق آئی جی پنجاب کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس میں سابق آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔
لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج اعجاز حسن اعوان نے سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس کی سماعت کی، جس میں سانحہ کے حوالے سے درج مقدمہ نمبر 510/14 کی سماعت کے دوران پاکستان عوامی تحریک کے 2 اشتہاری کارکن عدالت میں پیش ہوئے۔
ملزمان تنویر اعظم اور ساجد محمود نے درخواست ضمانت قبل از گرفتاری دائر کی تھی، جس پر عدالت نے فریقین کے وکلا کو گواہوں کے بیانات پر جرح کے لیے عدالت طلب کیا۔
مزید پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس: ڈی آئی جی سمیت 115 ملزمان پر فرد جرم عائد
بعد ازاں پولیس کی جانب سے وکیل برہان معظم ملک عدالت میں پیش ہوئے جبکہ عوامی تحریک کی جانب سے وکیل محرم علی بالی عدالت میں پیش ہوئے، اس موقع پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل عبدالروف وٹو بھی عدالت میں موجود تھے۔
خیال رہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس میں گواہوں جواد حامد، فدا حسین، صابر کمال، احسان اللہ، ذوالفقار بٹ، انصر حیات کھوکھر سمیت 23 کے بیان قلمبند ہو چکے ہیں جبکہ عدالت نے 510/14 مقدمے میں 78 گواہوں کے بیانات قلمبند ہوچکے ہیں۔
علاوہ ازیں عدالت نے سابق آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔
خیال رہے کہ 12 اپریل 2018 کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس میں ڈی آئی جی رانا عبدالجبار سمیت 115 ملزمان پر فرد جرم عائد کی تھی۔
18 اپریل 2018 کو سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلق درخواستوں پر سپریم کورٹ کے احکامات کے پیش نظر سماعت کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں فل بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ استغاثہ کیس عوامی تحریک کی جانب سے دائر کیا گیا تھا، جس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت 12 سیاسی شخصیات، پولیس افسران، اہلکار اور ضلعی حکومت کے عہدیداروں کو فریق بنایا گیا تھا، تاہم عدالت نے استغاثہ میں سے سیاسی شخصیات کے نام ختم کر دیئے تھے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن
یاد رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں تحریک منہاج القران کے مرکزی سیکریٹریٹ اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا۔
آپریشن کے دوران پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت کے دوران ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی تھی جس کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 90 کے قریب زخمی بھی ہوئے تھے۔
بعدازاں حکومت نے اس واقعے کی انکوائری کروائی، تاہم رپورٹ کو منظرعام پر نہیں لایا گیا، جس کا مطالبہ سانحے کے متاثرین کے ورثاء کی جانب سے متعدد مرتبہ کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس: ڈی آئی جی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
گزشتہ برس اگست میں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ منظر عام پر لانے کے لیے درخواست دائر کی تھی۔
ان افراد کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ 2014 میں ہونے والے ماڈل ٹاؤن سانحے کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن نے انکوائری رپورٹ مکمل کرکے پنجاب حکومت کے حوالے کردی تھی، جسے منظرعام پر نہیں لایا گیا۔
تاہم بعد ازاں عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا حکم دیا تھا، جس کے بعد حکومت جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو عام کردیا گیا۔