'آنگ سان سوچی کے قابلِ افسوس اقدامات کے باوجود نوبل انعام واپس لینا ممکن نہیں'
نوبل انعام سے نوازنے والے ادارے نوبل فاؤنڈیشن کے سربراہ ’لارس ہیکنسٹن‘ کا کہنا ہے کہ میانمار کی حکمران آنگ سان سوچی کے کچھ اقدامات قابلِ افسوس ضرور ہیں لیکن ان سے امن کا نوبل انعام واپس نہیں لیا جائے گا۔
یہ بات انہوں نے برطانوی خبررساں ادارے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہی کہ نوبل انعام دینے کا فیصلہ ججوں کے جانب سے تمام تر چیزوں کا جائزہ لینے کے بعد کیا جاتا ہے چناچہ اس کے بعد اگر کچھ ہوتا ہے تو دیا گیا نوبل انعام واپس لینے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
لارس ہیکنسن کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ میانمار کی صورتحال میں ان کے کردار کے حوالے سے کئی سوالات اٹھائے گئے ہیں، ہم انسانی حقوق کی پاسداری کرتے ہیں یہ ہماری بنیادی روایات میں شامل ہے, اسی وجہ سے ہمارے لیے یہ کہنا کہ ’وہ‘ ذمہ دار ہیں،نہایت قابلِ افسوس بات ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آنگ سان سوچی سے نوبل انعام واپس لینا ممکن؟
نوبل فاؤنڈیشن کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ ہم نہیں سمجھتے کے انعام واپس لینے کا کوئی جواز ہے کیوں کہ اس کے بعد ایک مسلسل بحث کا آغاز ہوجائے گا جس میں یہ دیکھا جائے گا کہ لوگ نوبل انعام پانے کے بعد کیا کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے بہت سے نوبل انعام یافتہ رہے ہیں اور رہیں گے جنہوں نے انعام پانے کے بعد ایسی چیزیں کیں جو ہمارے نزدیک ٹھیک نہیں تھیں ہم یہ روک نہیں سکتے۔
خیال رہے کہ گزشتہ اقوامِ متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ میں میانمار میں فوج کے جانب سے روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو ’نسل کشی‘ قرار دیا گیا تھا، جن کے بعد 7 لاکھ سے زائد روہنگیا نے میانمار سے ہجرت کر کے بنگلہ دیش میں پناہ لے لی تھی۔
مزید پڑھیں: کینیڈا کا آنگ سان سوچی سے اعزازی شہریت واپس لینے کا فیصلہ
1991 میں میانمار میں سیاسی جدوجہد پر نوبل امن انعام وصول کرنے والی آنگ سان سوچی اب وہاں کی حکمران ہیں جنہیں اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں شہریوں کی حفاظت کی اپنی اخلاقی ذمہ داری نہ نبھانے پرقصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔
واضح رہے کہ میانمار اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کو ’یک طرفہ‘ قرار دے کر مسترد کرچکا ہے اور ان کا کہنا ہہے کہ گزشتہ برس اگست میں سیکیورٹی فورسز پر کیے گئے مبینہ حملوں کے بعد شروع کی جانے والی فوجی کارروائی ہر لحاظ سے جائز تھی۔
دوسری جانب آنگ سان سوچی نے ایک بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت رخائن اسٹیٹ میں صورتحال کو بہتر طور پر سنبھال سکتی تھی لیکن اسے بڑے جرائم کی اطلاع نہیں ملی۔
یہ بھی پڑھیں: روہنگیا تنازع: ’آنگ سان سوچی کو مستعفی ہوجانا چاہیے تھا‘
واضح رہے کہ سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم کی نوبل فاؤنڈیشن جو سویڈن اور ناروے کی دیگر مختلف تنظیموں کی جانب سے دیے جانے والے تمام نوبل انعاموں کا جائزہ لیتی ہے۔
اس حوالے سے 2 ماہ قبل ایک بیان جاری کرتے ہوئے امن کا نوبل انعام دینے والی نارویجئن نوبل کمیٹی کا کہنا تھا کہ اس کے قوانین اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ کسی کو دیا ہوا نوبل انعام واپس لیا جائے۔