6 جولائی 2018 کو صبح کے ساڑھے 9 ہی بجے ہیں مگر درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ رہا ہے۔ اس شدید گرمی سے پناہ فراہم کرنے کے لیے نہ ہی بادل ہیں اور نہ ہی ہوا چل رہی ہے۔
نیلی شرٹس میں ملبوس کئی پولیس اہلکار ایک ایسے سڑک پر پے در پے 4 اسٹیل بیریئرز پر پہرہ دے رہے ہیں جو اسلام آباد کے سیکٹر جی 11 میں فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس کی جانب جاتا ہے۔ یہ علاقہ ضابطہءِ فوجداری کی 4 یا اس سے زائد لوگوں کے اجتماع کو ممنوع کرنے والی شق 144 کے تحت عوام کے لیے بند ہے۔ یہاں بیریئرز کے پاس مسلم لیگ (ن) کے کوئی آدھا درجن کارکن بے دلی سے نعرے بلند کر رہے ہیں۔
جوڈیشل کمپلیکس کے اندر کوئی 100 کے قریب صحافی عمارت کے تیزی سے سکڑتے ہوئے سائے میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ہر تھوڑی دیر بعد ان میں سے ایک چھوٹا سا گروہ عدالتی کمروں کی جانب جانے والے بند دروازے تک جاتا ہے اور اندر جانے کے ناکام مذاکرات کے بعد واپس آجاتا ہے۔
اندر برطرف وزیرِ اعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن محمد صفدر کے خلاف ایک احتسابی مقدمے کے فیصلے کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ ان پر مشکوک دولت کے ذریعے لندن میں 4 فلیٹس خریدنے کا مقدمہ ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر سید آصف سعید کرمانی اور اسی جماعت کے سابق وفاقی وزیر طارق فضل چوہدری بھی دروازے کے باہر قطار میں کھڑے ہیں۔ نواز شریف کے پولیٹیکل سیکریٹری کے طور پر کچھ عرصہ پہلے تک کرمانی ہی کی اجازت سے کوئی اندر آ سکتا تھا۔ آج وہ بھی اندر جانے کے منتظر لوگوں کے مجمعے کا حصہ ہیں۔
10 بجے دروازہ کھلتا ہے اور لوگوں کا ایک گروہ باہر آ کر اعلان کرتا ہے کہ وکیلِ دفاع خواجہ حارث نے فیصلے کو ایک ہفتے تک ملتوی کرنے کی درخواست دی ہے تاکہ ان کے مؤکل نواز شریف فیصلہ خود سن سکیں۔ ایک گھنٹے بعد احتساب عدالت کے جج محمد بشیر اس درخواست کو مسترد کر دیتے ہیں۔
فیصلہ جسے ساڑھے 12 بجے سنایا جانا تھا، ملتوی کرکے ڈھائی بجے تک مؤخر کر دیا گیا، پھر ساڑھے 3 بجے تک اور پھر ساڑھے 4 بجے تک۔ کمپلیکس کے باہر تعینات کوئی دو درجن رینجرز اہلکاروں پر بھی اب تھکاوٹ کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ وہ اب بار بار اپنے پیر بدل رہے ہیں اور انہوں نے اپنی بندوقوں کی نالیاں نیچے کر لی ہیں۔
صحافیوں کو اندر موجود صحافیوں سے باتھ روم کی ایک کھڑکی کے ذریعے خبریں مل رہی ہیں۔ تاخیر کے متعلق کافی مزاحیہ اندازے لگائے جا رہے ہیں جن میں سماجی طور پر غیر موزوں سے لے کر عدالت کی توہین کے معیار پر پورا اتر سکنے والے جملے بھی شامل ہیں۔ نواز شریف مجرم پائے جائیں گے یہ نتیجہ تو کافی پہلے ہی اخذ کر لیا گیا تھا مگر اس وقت سب کو انتظار یہ ہے کہ انہیں کتنی سزا دی جا رہی ہے۔
اور پھر دروازہ کھلتا ہے اور کافی سارے لوگ جذباتی انداز میں چلّاتے ہوئے باہر آتے ہیں۔ اس شور ہنگامے میں صرف کچھ ٹکڑے ہی سمجھ آتے ہیں: ’نواز 10 سال، مریم 7 سال، صفدر 1 سال، 1 ملین پاؤنڈ [اسٹرلنگ] جرمانہ، ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی ضبطگی۔‘
نواز شریف سرخ اینٹوں سے تعمیر کی گئی فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس کی عمارت سے بخوبی واقف ہیں۔ 13 ستمبر 2017 سے 6 جولائی 2018 تک 78 صبحیں ایسی رہی ہیں جب وہ اپنی سیاہ لگژری گاڑی میں اس کا گیٹ عبور کرکے اندر داخل ہوئے ہیں۔ ان کی گاڑی کا بونٹ اور چھت ہمیشہ چیک پوائنٹ کے باہر تعینات درجن کے قریب حامیوں کی جانب سے درست نشانے کے ساتھ پھینکی گئی پھولوں کی پتیوں سے لدی ہوئی ہوتی تھی۔
وہ ہمیشہ وقت پر آتے تھے، کبھی کبھی تو وقت سے بھی پہلے۔ ان کی گاڑی نظر آتے ہی سیکیورٹی اہلکار الرٹ ہوجاتے اور باڈی گارڈز کا ایک حلقہ انہیں، مریم اور صفدر کو لیگی کارکنوں اور پریس کے جمگھٹے سے نکال کر کچھ سیڑھیاں اوپر کمپلیکس کے دروازے تک پہنچاتا۔
کمپلیکس کے اندر موجود کورٹ روم نمبر 1 میں وہ شان و شوکت نہیں جو سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر 1 کی ہے۔ بینچوں اور کرسیوں پر مشتمل یہ چھوٹا سا مستطیل کمرہ صرف تقریباً 40 لوگوں کے لیے ہے جو بیچ کی راہداری کے دونوں اطراف لگی ہوئی ہیں۔ نواز شریف اور مریم ہمیشہ اگلی صف میں 2 نشستوں پر بیٹھا کرتے۔
جس دن نواز شریف کو پیش ہونا ہوتا، اس دن پرویز رشید، دانیال عزیز، مریم اورنگزیب اور راجہ ظفر الحق سمیت کئی دیگر سینئر لیگی رہنماؤں کا ان کے ساتھ نظر آنا معمول کی بات تھی۔ ان میں سے کچھ نواز شریف سے پہلے ہی پہنچ کر سیڑھیوں پر ان کا انتظار کر رہے ہوتے، جبکہ دیگر سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں آتے جاتے رہتے۔
کبھی نواز شریف جج کی آمد کا انتظار کرتے وقت اخبار پڑھتے جبکہ مریم اپنی گلابی رنگ کی ڈیجیٹل تسبیح پر دعائیں پڑھ رہی ہوتیں، اور یہ کام ان کی ہم نام اور ساتھی مریم اورنگزیب بڑی فرض شناسی کے ساتھ دہراتیں۔ ہر تھوڑی دیر کے بعد کوئی نہ کوئی شخص نواز شریف کے پاس آتا، ان سے ہاتھ ملاتا، حمایت کے دعوے کرتا؛ مریم کبھی کبھی قانونی معاملات یا پھر تازہ ترین ٹوئٹر ٹرینڈ کے حوالے سے اپنے قریبی ساتھیوں سے گفتگو کرتیں۔ صفدر اس مقدمے میں فریق ہونے کے باوجود ٹرائل سے سب سے زیادہ عدم دلچسپی رکھنے والے تھے اور وہ اپنا وقت پچھلی نشستوں پر یا پھر کمرہ عدالت کے باہر لوگوں سے باتیں کرتے ہوئے گزارتے۔
نواز شریف اور مریم کی نشستوں سے کچھ آگے جج کی اونچی میز کے سامنے خواجہ حارث کی سربراہی میں ان کی قانونی ٹیم اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے وکلاء بیٹھا کرتے۔
حارث کے ساتھ مریم کے وکیل امجد پرویز موجود ہوتے جنہیں وائٹ کالر جرائم کے مشہور مقدمات میں دولتمندوں کے دفاع کے لیے جانا جاتا ہے۔ ان کے کلائنٹس میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سینئر رہنما فاروق ستار اور سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے بیٹے چوہدری مونس الٰہی شامل ہیں جو کہ اب پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ہیں۔