پاکستان

سپریم کورٹ: قتل کے 2 ملزمان 12 سال بعد بری

پولیس کے کیس حل ہونے اور کیس ثابت کرنے میں فرق ہے، جعلی گواہ کی وجہ سے ملزم بری ہو تو قصور عدالت کا بن جاتا ہے، عدالت
|

اسلام آباد :سپریم کورٹ نے عدم شواہد کی بنیاد پر قتل کے دو ملزمان کو 12 سال بعد بری کرنے کا حکم سنادیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے ملزمان راشد اسلم اور ارشد نبی پر عبدالسمیع نامی شخص کو 2006 میں قتل کرکے لاش بوری میں بند کر کے سمندر میں پھینکنے کا الزام تھا، جس پر ٹرائل کورٹ نے دونوں ملزمان کو موت کی سزا سنائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: 20 سال پرانے قتل کیس میں خاتون سمیت 3 افراد باعزت بری

سپریم کورٹ میں فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران جسٹس آصف علی کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے ڈی این اے ٹیسٹ کو قابل قبول شہادت قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے کسی فیصلے میں ڈی این اے رپورٹ کو ناقابل قبول شہادت قرار نہیں دیا، اس لیے ڈی این اے ٹیسٹ کے ناقابل قبول شہادت ہونے کا تاثر غلط ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ پولیس کے کیس حل ہونے اور کیس ثابت کرنے میں فرق ہے، جعلی گواہ کی وجہ سے ملزم بری ہو تو قصور عدالت کا بن جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: یلو کیب فراڈ کیس: ملزم عبدالمجید سومرو 22 سال بعد بری

بعد ازاں عدالت نے دونوں ملزمان کی سزائے موت معطل کرتے ہوئے عدم شواہد کی بنیاد پر بری کردیا۔

دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ نے بھی سزائے موت کے منتظر دو قیدیوں کو ناکافی شواہد کی بنیاد پر رہائی کا حکم دے دیا، دونوں ملزمان 4 سال سے قید تھے۔

جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے محمد شہزاد اور شہباز علی نامی ملزمان کی سزائے موت کے خلاف اپیل کی سماعت کی جبکہ ملزمان کی جانب سے چوہدری عثمان نسیم ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: داعش کمانڈرز کی معاونت کے الزام میں گرفتار 9 ملزمان بری

دورانِ سماعت وکیل نے موقف اختیار کیا کہ دونوں افراد پر 2014 میں علی رضا نامی شخص کو قتل کرنے کا الزام عائد ہوا تھا اور دونوں ملزمان ڈسٹرک جیل فیصل آباد میں قید تھے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ فیصل آباد نے سال 2015 میں حقائق کے برعکس ملزمان کو سزائے موت سنائی تھی جبکہ ملزمان کے خلاف جو شہادتیں دی گئیں وہ گواہان موقع پر موجود بھی نہ تھے۔

وکیل کا مزید کہنا تھا کہ ملزمان قتل کے وقت موقع واردات پر موجود بھی نہ تھے، پولیس نے مخالفین کے ساتھ ساز باز کر کے انہیں مقدمہ میں ملوث کیا۔

مزید پڑھیں: قتل کا ملزم 24 سال بعد ناکافی ثبوت پر بری

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد بھی موجود نہیں چناچہ ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیا جائے۔

بعدازاں عدالت نے دونوں ملزمان کو ناکافی شواہد کی بنیاد پر قتل کے مقدمے سے بری کرنے کا حکم دے دیا۔

واضح رہے کہ طویل عرصے سے قید ملزمان کی رہائی کا یہ پہلا معاملہ نہیں بلکہ اس سے قبل مختلف مقدمات میں بے گناہوں کی کئی سال سزا بھگتنے کے بعد رہائی کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔

ایسے ہی ایک کیس میں قتل کے الزام میں 19 سال سے قید مظہر حسین کو جب عدالت سے رہائی کا پروانہ ملا تو علم ہوا کہ اس کا 2 سال قبل ہی انتقال ہوچکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: قتل کا ملزم 14 سال بعد رہا

ایک اور مقدمے میں 1992 سے قید مظہر فاروق نامی شخص کو ناکافی شواہد کی بنا پر 24 سال بعد 2016 میں بری کیا گیا تھا۔

رواں برس اپریل میں والد والدہ اور بھائی کے تہرے قتل کے الزام میں سینٹرل جیل کراچی میں قید عاصمہ نواب کو 20 سال بعد سپریم کورٹ نے ناکافی شواہد کی بنا پر رہا کیا تھا جنہیں 1998 میں گرفتار کیا گیا تھا۔