پاکستان

پاکستان میں سعودی عرب کی بھاری سرمایہ کاری کا امکان

سعودی وفد گوادر میں تیل ریفائنری، ریکوڈک اور دیگر منصوبوں کا جائزہ لینے اور اس حوالے سے سمجھوتہ کرنے پاکستان پہنچ گیا۔

اسلام آباد: پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تیل اور معدنی ذخائر کے منصوبوں میں سرمایہ کاری اور تجارتی تعاون کی 4 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے جانے کا امکان ہے۔

ان مفاہمتی یادداشتوں میں گوادر سے براستہ اومان اور ریاض، افریقہ تک جانے والے بیلٹ اور روڈ کے چینی منصوبے کے تحت منصوبوں پر بھی سمجھوتوں کی امید ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا تھا کہ منصوبوں کا جائزہ لینے کے لیے سعودی وفد اتوار کے روز 4 روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچ گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری میں دلچسپی ہے، سعودی ولی عہد

ذرائع کا کہنا ہے کہ قطر اور ایران کے ساتھ اختلافات کے سبب سعودی عرب اپنے تجارتی راستوں کو نئی جہت دینا چاہتا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی بات چیت میں تاخیری ادائیگیوں پر ریفائینڈ مصنوعات اور خام تیل کی فراہمی پر بھی گفتگو کی جائے گی، جس سے اسلام آباد کو ادائیگی میں تاخیر کے باوجود پیٹرولیم مصنوعات اور خام تیل کی فراہمی جاری رہنے کی امید ہے۔

دوسری جانب سعودی عرب گوادر میں تیل ریفائنری لگانے اور بلوچستان میں سونے اور تانبے کے منصوبوں جبکہ پنجاب میں لیکویفائیڈ نیچرل گیس (این ایل جی) کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کا جائزہ بھی لے گا۔

سعودی وزیر برائے توانائی، صنعت اور معدنی ذخائر کی سربراہی میں آنے والے سعودی وفد میں سعودی عرب کی تیل کی قومی پیداواری کمپنی ’آرامکو‘ کے اراکین بھی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب کی معاشی تبدیلیوں سے پاکستان کیسے فائدہ اُٹھا سکتا ہے؟

سعودی وفد منگل کے روز گوادر بندرگاہ اور ریکوڈک کان کا دورہ کرے گا جس کے بعد بدھ کو حتمی مذاکرات کا انعقاد ہوگا، جس میں گوادر ریفائنری، ریکوڈک، 2 پاور پلانٹ اور تیل کی فراہمی کے منصوبوں پر دستخط کیے جائیں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے سعودی عرب سے طویل المدتی معاہدے کی درخواست کی ہے جس کے تحت پاکستان کو تاخیری ادائیگیوں پر تیل کی فراہمی جاری رکھی جائے۔

واضح رہے کہ پاکستان، سعودی عرب سے یومیہ ایک لاکھ 10 ہزار بیرل خام تیل درآمد کرتا ہے، جس کی ادائیگی تاخیر سے کی جاتی ہے۔

خیال رہے کہ 1998 میں پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کے بعد ریاض نے تاخیری ادائیگیوں پر پاکستان کو 2 سال کے لیے تیل کی فراہمی کی سہولت دی تھی، جس کے بعد سے اب تک اس مدت میں ہر بار 3 سال کا اضافہ کردیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم عمران خان اچانک سعودی عرب کیوں گئے؟

اس ضمن میں وزارت خزانہ کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ تمام منصوبوں کو عملی شکل دینے کے لیے خاصہ وقت درکار ہے، لیکن اس سرمایہ کاری سے پاکستانی زرِمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئے گی۔

دوسری جانب انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کا وفد بھی پاکستان کے دورے پر ہے جو مستقبل میں آئی ایم ایف پروگرام کو بنیاد فراہم کرنے کے لیے حکومتی نمائندوں سے ملاقاتیں کر رہا ہے۔

چنانچہ سعودی سرمایہ کاری کے معاہدے اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کریں گے جس کے بعد ہی پاکستان آئی ایم ایف کے پاس جانے یا نہ جانے کا فیصلہ کرے گا۔