پاکستان

سپریم کورٹ: منرل واٹر کمپنی نیسلے کو 5 سال کا ریکارڈ پیش کرنے کا حکم

نیسلے کمپنی کے پانی کے جتنے بھی لیبارٹری ٹیسٹ کروائے گئے وہ غیر معیاری نکلتے رہے، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار
|

سپریم کورٹ آف پاکستان نے منرل واٹر کمپنی نیسلے کو اپنے 5 سال کا ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں منرل واٹر کمپنیوں سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی، اس دوران نیسلے کمپنی کے وکیل اعتراز احسن پیش ہوئے۔

دوران سماعت وکیل اعتزاز احسن کی جانب سے فرانزک آڈیٹر کوکب جمال پر اعتراض کیا گیا۔

اس پر چیف جسٹس نے اعتزاز احسن سے مکالمہ کیا کہ کسی بڑی کمپنی کے وکیل ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کریں۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس کا منرل واٹر کمپنی نیسلے کے فرانزک آڈٹ کا حکم

وکیل اعتراز احسن نے کمپنی کے ساتھ امتیازی سلوک کا شکوہ کیا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیسلے سے امتیازی سلوک کیسے کرسکتے ہیں، نیسلے کمپنی پاکستان میں فتور ڈال رہی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیسلے کمپنی کے پانی کے جتنے بھی لیبارٹری ٹیسٹ کروائے گئے وہ غیر معیاری نکلتے رہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ کیوں نہ ریکارڈ ملنے اور لیبارٹری نمونے آنے تک آپ (نیسلے) کی فیکٹریاں سیل کردیں اور پانی کی فروخت پر پابندی لگا دیں۔

بعد ازاں عدالت نے ایڈووکیٹ میاں ظفر اقبال کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے نیسلے کمپنی کا گزشتہ 5 سال کا ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

ساتھ ہی عدالت نے پانی کے نمونوں کی لیبارٹری رپورٹ جلد پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

واضح رہے کہ 14 ستمبر کو چیف جسٹس نے پانی کی قلت سے متعلق کیسز کی سماعت کے دوران منرل واٹر کمپنیوں سے متعلق ازخود نوٹس لیا تھا اور کمپنیوں سے پانی کے استعمال کا ڈیٹا طلب کیا تھا۔

اس ازخود نوٹس پر عدالت نے نیسلے سمیت منرل واٹر کی تمام بڑی کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو افسران (سی ای اوز) کو عدالت طلب کر کیا تھا۔

بعد ازاں 16 ستمبر کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے منرل واٹر کمپنی نیسلے کے فرانزک آڈٹ کروانے کا حکم دیا تھا۔

ساتھ ہی عدالت نے پاکستان کی بڑی منرل واٹر کمپنیوں کے پانی کے نمونے چیک کروانے کا بھی حکم دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس نے منرل واٹر کمپنیوں سے متعلق ازخود نوٹس لے لیا

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ اب وقت آگیا ہے کہ جو قوم نے ہمیں دیا ہے اسے لوٹانا ہے، لوگوں میں احساس پیدا ہو گیا ہے کہ اب ہم سے پوچھا جا سکتا ہے، اس کیس کے بعد کمپنیاں مناسب قیمت ادا کریں گی اور پانی کی قیمت بھی مناسب رکھیں گی۔

انہوں نے کہا تھا کہ پانی ایک ایسا مسئلہ ہے، جسے ہر گز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، اب بڑی بڑی سوسائٹیوں کا نمبر آنا ہے، جو ٹیوب ویل لگا کر رہائیشیوں سے پوری قیمت وصول کرتی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ بڑی سوسائٹیاں قیمت پوری وصول کرتی ہیں مگر حکومت کو ایک پیسہ نہیں دیتیں، آئندہ ہفتے سوسائٹیوں میں پانی کی فراہمی کے حوالے سے متعلق نوٹس لیں گے۔