تھر کول منصوبہ: 'اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ بچانا ممکن'
سندھ کے انتہائی پسماندہ اور قحط کا شکار علاقے میں کوئلے کی دریافت نے جہاں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اس علاقے کی جانب راغب کیا، وہیں مقامی کمپنیاں اور سرمایہ دار بھی بڑی تعداد میں اس منصوبے میں اپنی دلچسپی ظاہر کررہے ہیں۔
تھرپارکر میں 2016 سے حکومت سندھ اور اینگرو کارپوریشن لمیٹڈ کی شراکت سے قائم کی جانے والی سندھ اینگرو کول مائیننگ کمپنی (ایس ای سی ایم سی) کی جانب سے کوئلہ نکالنے کے لیے کھدائی کاعمل جاری تھا کہ کچھ دن قبل ہی کمپنی نے دعویٰ کیا کہ وہ تھرپارکر کے لوگوں کی زندگیاں اور خاص طور پر پاکستان کے عوام کی زندگیاں بدلنے والے کوئلے تک پہنچ گئی ہے۔
ایس ای سی ایم سی کے ڈائریکٹر آپریشنز اینڈ مائینز مرتضیٰ اظہر رضوی نے ایک بریفنگ کے دوران بتایا کہ 148 میٹر کی کھدائی کی جاچکی ہے جس کے ساتھ ہی کمپنی کو کوئلے کی پہلی 'پرت' مل گئی ہے جبکہ 160 میٹر تک کھدائی کی صورت میں کوئلہ مکمل صورت میں ملنا شروع ہوجائے گا اور 190 میٹر پر بہتر معیار کا کوئلہ برآمد کیا جاسکے گا۔
انہوں نے بتایا کہ فی الحال کھلی کان کی گہرائی میں کھدائی کا کام روک دیا گیا ہے جبکہ اسے پھیلانے کا عمل جاری ہے تاکہ پاور پلانٹ کی تکمیل اور اس کے کام کے ابتدا ہی سے مطلوبہ مقدار میں کوئلہ حاصل کیا جاسکے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاور پلانٹ کی تکمیل کا کام تیزی سے جاری ہے اور اسے مقرر وقت سے 5 ماہ قبل (دسمبر 2018) میں مکمل کرکے منصوبے کا 20 فیصد تخمینہ بچایا جائے گا، انہوں نے مزید بتایا کہ کوئلے کی کھدائی اور پاور پلانٹ کی تکمیل کے لیے 41 ماہ کا ہدف مقرر کیا گیا تھا جسے وقت مقرر سے قبل ہی 37 ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا۔