پاکستان

آئی ایم ایف اور حکومت کے مابین مشاورت کا آغاز

حکومت نے رواں مالی سال کے لیے 8 سے 9 ارب ڈالر کی ضرورت کا تخمینہ ظاہر کیا ہے، رپورٹ

اسلام آباد: انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے وفد نے حکومتِ پاکستان کے ساتھ اقتصادی اعداد و شمار اور مستقبل کی معاشی پالیسییوں کے حوالے سے مذاکرات کا آغاز کردیا جس کے بعد متوقع طور پر ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے مدد حاصل ہوسکے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے سینیئر ماہرِ معاشیات ہیرلڈ فنگر کی سربراہی میں وفد نے وزیر خزانہ اسد عمر اور سیکریٹری خزانہ عارف احمد خان کی سربراہی میں ٹیم سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔

مذکورہ وفد 4 اکتوبر تک پاکستان کے دورے پر ہے، تاہم اس حوالے سے آئی ایم ایف نے باضابطہ طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا نہ ہی وزیر خزانہ اس بارے میں گفتگو کے لیے دستیاب ہوسکے۔

یہ بھی پڑھیں: ’مہنگی کاروں،موبائل فونز کی درآمد پر پابندی آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بچاسکتی ہے‘

تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں فریقین میکرو اکنامک اشاروں، خاص کر توانائی کے شعبے، پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی تفصیلات اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے بنیادی اصلاحات کے منصوبے سمیت خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کے حوالے سے مشاورتی اجلاس میں شرکت کریں گے۔

خیال رہے کہ حکومت نے رواں مالی سال کے لیے 8 سے 9 ارب ڈالر کی ضرورت کا تخمینہ ظاہر کیا ہے لیکن ابھی تک حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ چین اور سعودی عرب سے کس قدر مدد حاصل ہوسکے گی۔

اس حوالے سے ایک سینئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ آپ اسے پیشگی روابط سمجھ سکتے ہیں لیکن ابھی تک قیادت کی جانب سے آئی ایم ایف سے مدد حاصل کرنے کے لیے فیصلہ نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: آئی ایم ایف سےرجوع کرنے پر امریکا،پاکستان کی مخالفت نہیں کرےگا،فواد چوہدری

ان کا مزید کہنا تھا کہ گفتگو کے دوران بنیادی نکتہ حکومت کا سرکاری اداروں کی نجکاری ہوگا کیوں کہ سابق حکومت خسارے میں چلنے والے اداروں کے سلسلے میں قابلِ ذکر اقدامات نہیں کرسکی۔

واضح رہے کہ شدید مالی بحران کے شکار سرکاری اداروں میں پاکستان سٹیل ملز، پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز، گیس کے 2 پیداواری ادارے او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل جبکہ توانائی کا شعبہ شامل ہے جو نجکاری فہرست کا حصہ ہیں۔

ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف وفد، سی پیک کے تحت منصوبوں کی تفصیلات بالخصوص توانائی کے مکمل کیے جانے والے منصوبوں اور زیر تعمیر منصوبوں اور انکی تکمیل کے مرحلوں کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’آئی ایم ایف کے پاس جانا تباہ کن ہوگا‘

اس کے علاوہ انہوں نے حکومت، خاص کر توانائی اور خزانے کے شعبہ جات سے صارفین سے رقوم کی مکمل وصولی کے حوالے سے پیش کیے گئے اقدامات کی تفصیلات بھی طلب کیں۔

جس کے بارے میں دونوں محکموں کو تازہ ترین اعداد و شمار سے آگاہ کرنا ہوگا، اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے سیکریٹری خزانہ، گورنر اسٹیٹ بینک، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین، نجکاری، توانائی اور پیٹرولیم کے سیکریٹریز پر مشتمل ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے.

وزیر خزانہ اسد عمر اس حوالے سے پالیسی کی سطح پر گفتگو اور مشاورت کرنے کے لیے 4 اکتوبر کو شامل ہوں گے۔

مزید پڑھیں: اس بار ’آئی ایم ایف‘ کے پاس گئے تو وہ اتنی آسانی سے نہیں مانے گا

دوسری جانب انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں 8 سے 14 اکتوبر تک متوقع آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سالانہ اجلاس میں وزیر خزانہ کی ان مالیاتی اداروں کی قیادت سے ملاقات کا امکان ہے جس میں مستقبل کے اقدامات کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا۔