نقطہ نظر

کیا ارتقاء میں انسان بیکٹیریا جیسی مخلوق تھا؟

انسانی ارتقاء سے متعلق اب تک بے شمارنظریات پیش کیے جاچکے ہیں،لیکن گزشتہ عشرے میں آنے والے نظریے نے خیالات کو ہی بدل دیا

کرہ ارض پر زندگی کی ابتداء اور ارتقاء سے متعلق اب تک بے شمار نظریات پیش کیے جاچکے ہیں جن میں سب سے زیادہ اہمیت چارلس ڈارون کے نظریۂ ارتقاء کو حاصل ہوئی، 1873 میں نوجوان چارلس ڈارون نے زمین پر زندگی کے ارتقاء سے متعلق اپنے منتشر خیالات کو جمع کرکے ارتقاء کی اس طویل کڑی کو مختصر کرکے ایک ڈائیگرام کی صورت میں پیش کیا جسے بعد میں ایولیوشنری ٹری یا 'شجرارتقاء' کا نام دیا گیا۔

اس تصوراتی خاکے میں شاخوں کو مختلف خطوط سے ظاہر کیا گیا تھا جو زمین پر پائے جانے والے مختلف النوع جانداروں کی نمائندگی کرتی تھیں، ہر جانب پھیلے ہوئے اس شجر ارتقاء کا بغور جائزہ لینے سے ماہرین حیاتات اور سائنسدانوں کو مزید تحقیق کے لیے ایک نیا نکتہ حاصل ہوا کہ ہو نہ ہو تمام مخلوقات چاہے وہ کثیر خلوی جاندار ہوں یا یک خلوی ان کا اصل یا منبع ایک ہی رہا ہوگا۔

بظاہر آج مختلف نوع بلکہ ایک ہی نسل کے جاندار ایک دوسرے سے مختلف نظر آتے ہیں مگر ان کی ابتداء ایک ہی تھی اور پھر صدیوں کے ارتقائی عمل کی وجہ سے ان میں تبدیلیاں واقع ہوتی گئیں۔

اگرچہ ابتداء میں ڈارون کے پاس اپنے ان تصورات سے متعلق کوئی قانون نہیں تھا، مگر انہوں نے اپنا کام جاری رکھا اور 22 سال کی شب و روز کی تحقیق کے بعد ڈارون نے زمین پر زندگی کی ابتداء اور بتدریج ارتقاء پر اپنے قوانین پیش کیے، جن کے مطابق ارتقاء کو مختصر کر کے ایک درخت کی صورت میں ظاہر کیا جا سکتا ہے،اس درخت کے توانا تنے سے مراد تمام جانداروں کی مشترکہ ابتداء تھی۔

اگرچہ اس دور میں ڈی این اے یا جین ٹرانسفر کا کوئی واضح خاکہ یا نظریہ موجود نہیں تھا، تاہم ڈارون نے اپنے طور پر فرض کرتے ہوئے وقت کے ساتھ رونما ہونے والی ارتقائی تبدیلیوں کو درخت کے مختلف حصوں سے ظاہر کیا جب کہ شاخیں اور پتے نئے وجود میں آنے والی انواع کے نمائندہ تھے۔

ڈارون کا یہ شجر ارتقاء 1801 میں پیش کیے گئے آگسٹن آگیئر کے بنائے گئے ٹری ڈائیگرام سے کافی مختلف تھا، آگسٹن 18 ویں صدی کے ایک مشہور ماہر نباتات تھے، اپنے بنائے گئے ڈائیگرام میں انہوں نے کرہ ارض پر پائی جانے والی لاتعداد نباتات کی اقسام کو آسان اور قابل فہم انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔

اس ڈائیگرام میں نباتات کی بڑی اور کثرت سے پائی جانے والی اقسام کو درخت کی باڈی سے جب کہ چھوٹی اور کم پائی جانے والی انواع کو ٹہنیوں اور پتوں سے ظاہر کیا گیا تھا، آگسٹن کا تیار کردہ یہ خاکہ نباتاتی ارتقاء کو ظاہر نہیں کرتا تھا، بلکہ انہوں نے محض اپنا تحقیقاتی ڈیٹا محفوظ کرنے کے لیے یہ طریقہ کار استعمال کیا تھا، مگر ڈارون کو اس خاکے سے ایک نئی جہت ملی اور انہوں نے زمین پر زندگی کی ابتداء کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک ایسا ہی ڈائیگرام بنا کر ارتقاء پر اپنے قوانین پیش کیے، جو کئی صدیوں تک سائنس خاص طور پر حیاتیات میں مصدقہ تصور کیے جاتے رہے۔

تاہم 1977 کے بعد سائنسی افق میں کارل ووز کے پیش کردہ نئے نظریات کے ساتھ بتدریج تبدیلیاں واقع ہوتی گئیں، کارل اربانا یونیورسٹی میں خوردبینی حیاتیات کے ماہر تھے، زمین پر زندگی کی ابتداء پر تحقیق کرتے ہوئے انہوں نے ایک تیسری طرح کی نوع دریافت کی جس کا تصور اس سے پہلے سائنس میں موجود نہیں تھا، کیونکہ اس نوع کو قدرت میں آزادانہ تلاش کرنا ممکن نہیں تھا۔

اس نوع کو جانداروں کی 'تیسری کنگڈم' کا نام دیا گیا، واضح رہے کہ حیاتیات میں جانداروں کی درجہ بندی کے لیے انہیں 7 درجات میں تقسیم کیا گیا ہے جس کا پہلادرجہ کنگڈم ہے، جس کے بعد بالترتیب فائیلم، کلاس، آرڈر، فیملی، جینز،اور سپی شیز کے درجات آتے ہیں۔

اس تیسری کنگڈم کو ‘آرکیہ' کا نام دیا گیا جس میں نہ صرف وراثتی خلیات موجود تھے، بلکہ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے میتھین گیس تیار کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی تھی۔

اگرچہ آرکیہ یک خلوی جاندار ہیں جن کے خلیے میں مرکز موجود نہیں ہے اور خوردبین سے مشاہدہ کرنے پر یہ بلکل بیکٹیریا ہی کی طرح دکھائی دیتے ہیں، ان کے متعلق ایک دہائی قبل تک سائنسدانوں کا یقین تھا کہ یہ زندہ اجسام جامد اورانتہائی قدیم ہیں اور شاید زمین پر زندگی کی ابتداء آرکیہ جیسے اجسام سے ہی ہوئی ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: بگ بینگ سے کائنات کیسے وجود میں آئی؟

ابتداء میں زیادہ تر ماہرین خوردبینی حیاتیات انہیں بیکٹیریا ہی سمجھتے تھے، مگر اس کے بعد ان کی کئی اقسام جو گرم چشموں،نمکین جھیلوں ،یا نکاسی آب کی پائپ لائنوں کے قریب دریافت ہوئی ان کے افعال بیکٹیریا سے یکسر مختلف تھے، سب سے پہلے ان میں میٹا بولزم (جاندار اجسام میں ہونے والے کیمیائی عوامل) آکسیجن کی غیر موجودگی میں سر انجام پاتے ہیں، اس کے علاوہ ان کے ڈی این اے میں ایسی کئی خصوصیات سرے سے موجود ہی نہیں تھیں جو بیکٹیریا کے ڈی این اے میں پائی جاتی ہیں۔

کارل ووز نے دیگر تفصیلات میں جانے کے بجائے براہ راست آرکیہ اور بیکٹیریا کے ڈی این اے کا موازنہ کیا تو ان میں کئی ایسی خصوصیات بھی دریافت ہوئیں جو انسانوں، جانوروں اور دیگر کثیر خلوی جانداروں کے علاوہ، یک خلوی اور خوردبینی حیات میں بھی موجود نہیں ہوتیں،اس لیے جانداروں کی درجہ بندی میں انہیں ایک علیحدہ کنگڈم میں جگہ دی گئی، جو بیکٹیریا اور فنجائی سے مختلف ہے۔

گزرتے وقت کے ساتھ انسان سمیت تمام جانداروں کے ڈی این اے میں تبدیلیاں رونما ہوئیں—فوٹو: کنیکٹنگ امیجز

کارل ووز کو اپنے نظریات پر ملے جلے رد عمل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ بظاہر ان کی تحقیق ڈارون کے نظریہ ارتقاء سے متصادم نظر آتی تھی، مگر کارل ووز کی تحقیقات محض ایک بار نیو یارک ٹائمز کے سر ورق پر جگہ بنا سکیں اور اس کے بعد وہ اربانا یونیورسٹی میں اپنی لیبارٹری میں گوشہ نشین ہو گئے۔

کارل ووز کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ وہ لیکچر دینے یا دنیا کو اپنے کام اور ریسرچ سے آگاہ کرنے کے ہنر سے ناوقف تھے اس لیے 20 ویں صدی کا یہ عظیم سائنسدان آج بھی دنیا کی نظر وں سے اوجھل ہے، جسے بلاشبہ مائیکرو بایولوجی کا آئن اسٹائن قرار دیا جا سکتا ہے، جس کے چونکا دینے والے نظریات نے ایگزو( زمینی) اور ایسٹر ( فلکیاتی ) حیاتیات میں تحقیقات کے نئے دور کے آغاز کیا۔

جس طرح آئن اسٹائن نے نیوٹن کے قوانین کی تجدید نوکر کے طبیعات میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے اسی طرح کارل ووز نے ڈارون کے شجر ارتقاء والے نظریے کی ہوری زونٹل جین ٹرانسفر کے قانون سے تجدید کی۔

کارل ووز کے اس نظریے کو اب کلینیکلی مصدقہ تسلیم کیا جاچکا ہے کہ جین یا ڈی این اے تمام جانداروں میں سیدھا منتقل (جسے ڈارون کے شجر ارتقاء میں درخت کے تنے سے ظاہر کیا گیا تھا) منتقل ہونے کے بجائے سائیڈ وے یا اپنی حدود سے باہر نکل کر بھی منتقل ہوتا ہے۔

کارل ووز نے اس کی تصدیق ڈی این اے اسٹرکچر دریافت کرنے والے سائنسدان فرانسز کرک سے بھی کی، جن کے مطابق جاندار اجسام میں بہت لمبے خلیات جو مختلف چھوٹے یونٹس پر مشتمل ہوتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ ان کی کوڈ سیریز میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے،جس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ تمام جاندار انواع میں آپس میں تعلق پایا جاتا ہے اور وقت کے ساتھ ایک نوع کی کوڈ سیریز میں ہونے والی تبدیلی کی وجہ سے اگلی نسل یا کچھ نسلوں کے بعد اس نوع کے خدوخال،حرکات و سکنات یا افعال میں تبدیلیاں واقع ہو جاتی ہیں۔

مزید پڑھیں: آئن اسٹائن کا نظریہ اضافیت کیا ہے

اگرچہ کارل ووز آرکیہ کنگڈم کے نظریات کے ساتھ اپنی لیبارٹری میں گم ہو گئے تھے، مگر ان پر تحقیقات جاری رہیں اور پچھلے ایک عشرے میں جدید ترین ٹیکنالوجی کی بدولت مائیکرو اور ایگزو بایولوجی میں ہونے والی پیش رفت سے ان 3 حیران کن امر کی تصدیق ہوئی ہے جن کا 1977 میں تصور بھی محال تھا۔

ان میں اول نمبر میں آرکیہ یا جانداروں کی تیسری کنگڈم کی موجودگی کی تصدیق ہے، حال ہی میں ناروے اور گرین لینڈ کے درمیان واقع سمندر میں 11 ہزار فٹ کی گہرائی میں ایسے ہائیڈرو تھرمل وینٹس دریافت ہوئے ہیں جہاں آرکیہ موجود ہیں، مزید حیران کن امر یہ ہے کہ ایسے ہی ہائیڈرو تھرمل وینٹس کی موجودگی کی تصدیق زحل کی جانب بھیجے جانے والی خلائی گاڑی کیسینی سے حاصل ہونے والے ڈیٹا سے بھی ہوئی۔

ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات کے مطابق زحل کے چاند انسلیدس کے زیریں سمندر میں موجود ہائیڈرو تھرمل وینٹس میں بڑی جسامت کے نامیاتی مالیکیول دریافت ہوئے ہیں، جو زمین پر موجود ہائیڈرو تھرمل وینٹس کے مشابہہ ہیں۔

کرہ ارض پر موجود تمام جانداروں میں تبدیلیاں رونما ہوئیں—فوٹو: لائیو سائنس

کارلو ووز کے نظریات پر مزید تحقیق سے افقی سمت میں جین کی منتقلی کی بھی تصدیق ہوئی جسے ہوری زونٹل جین ٹرانسفر یا سائڈ وے ہیریڈیٹی (علیحدہ راستے سے توارثی مواد یا جین کی منتقلی) بھی کہا جاتا ہے، جبکہ تیسرا بڑا انکشاف خود انسان کی ابتداء کے متعلق ہوا، کہ زمین پر نسل انسانی کی ابتداء کیسے اور کن حالات میں ہوئی؟

تازہ ترین ریسرچ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ انسانی ارتقاء کی اس طویل زنجیر کو الٹایا جائے تو اس کے آخری سرے پر ہمیں آرکیہ جیسے تیسری کنگڈم والے جاندار ملتے ہیں۔

مزید پڑھیں: کائنات کی تشکیل سے اب تک، کب کیا ہوا؟

ناروے اور گرین لینڈ کے درمیان سمندر کی 11 ہزار فٹ کی گہرائی میں ملنے والی آرکیہ کے ایک گروپ کے خلیے بہت حد تک انسانی خلیے سے مشابہہ ہیں۔

مگر دیکھا جائے تو سائنس و ٹیکنالوجی میں اتنے سنگ میل عبور کر لینے اور دوسری کائناتوں تک رسائی حاصل کر لینے کے باوجود آج کا انسان اپنی ہی اصل اور بنیاد سے نا واقف ہے۔

گذشتہ ایک دہائی میں ہونے والی نئی تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کرہ ارض پر نسل انسانی کا ارتقاء ہماری سوچ سے کہیں زیادہ گنجلک اور پیچیدہ ہے جسے محض ڈارون کے شجر ارتقاء سے ظاہر کرنا ممکن نہیں ہے، کیونکہ ڈی این اے یا جین ہمیشہ عمودا یا سیدھا سیدھا ہی منتقل نہیں ہوتی بلکہ بعض اوقات ایک ہی کنگڈم میں منتقلی کے دوران وقفے پائے جاتے ہیں، یعنی بعض اوقات کوڈ سیریز میں تبدیلی کچھ نسلوں تک بر قرار رہتی ہے مگر کچھ عرصے بعد وہ پرانے کوڈ سیریز کو دہراتی ہے۔

اگرچہ جین کی منتقلی اور ارتقاء سے متعلق یہ تفصیلات 1977 سے دنیا بھر کے معتبر سائنسی جریدوں میں شائع ہوتی رہی ہیں مگر انہیں ابھی تک عام افراد کے لیے قابل فہم انداز میں پیش نہیں کیا گیا، درسی کتب میں بھی ڈارون کے نظریہ ارتقاء اور ایولیوشن ٹری کی معلومات ہی شامل ہیں، اس لیئے عام افراد اب تک آرکیہ جیسی تیسری کنگڈم کے جاندار سے ناواقف ہیں جن سے نسل انسانی کا کوئی نہ کوئی تعلق ضرور رہا ہے۔

صادقہ خان

صادقہ خان کوئٹہ سے تعلق رکھتی ہیں اور نیشنل سائنس ایوارڈ یافتہ سائنس رائٹر ، بلاگر اور دو سائنسی کتب کی مصنفہ ہیں۔ صادقہ آن لائن ڈیجیٹل سائنس میگزین سائنٹیا کی بانی اور ایڈیٹر بھی ہیں۔ ۔ ڈان نیوز پر سائنس اور اسپیس بیسڈ ایسٹرا نامی کے آرٹیکلز/بلاگز لکھتی ہیں۔ ان سے saadeqakhan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں saadeqakhan@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔