پاکستان

آصف زرداری اور ان کے بچوں کے اثاثوں کی تفصیلات طلب

15 دن میں ساری تفصیلات پیش کی جائیں، محترمہ کے ٹرائل کا سوچ بھی ہی نہیں سکتے، چیف جسٹس ثاقب نثار

سپریم کورٹ نے قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او) عملدرآمد کیس میں بے نظیربھٹو کے اثاثوں سے متعلق حکم واپس لیتے ہوئے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کے بچوں کے اثاثوں کی تفصیلات 15 دن میں طلب کرلیں۔

عدالت عظمیٰ نے آصف علی زرداری کی نظرثانی اپیل بھی منظور کرلی۔

واضح رہے کہ عدالت نے 29 اگست کی سماعت میں 2007 سے 2018 تک آصف علی زرداری اور ان کے اہل خانہ کے اثاثوں کی تفصیلات طلب کی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: این آر او کو قانون بنانے میں میرا کوئی کردار نہیں، آصف زرداری

آصف علی زرداری نے سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق کہا تھا کہ ‘میری اہلیہ بے نظیر بھٹو شہید کے اثاثوں کی تفصیلات مانگنا شہید کی قبر کے ٹرائل کے مترادف ہے’۔

سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ آصف علی زرداری ترکے میں ملنے والے اثاثوں کی 10 سال کی تفصیلات فراہم کریں۔

جس پر آصف علی زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے استدعا کی کہ 1997 سے 2005 تک میرے موکل جیل میں رہے، ان بچوں کا اثاثے مانگے جارہے جو زیر کفالت نہیں رہے، قانون صرف 5 سال کے لیے ہے، اس لیے 10 سال کے بجائے 5 سال کی تفصیلات طلب کی جائیں۔

مزید پڑھیں: وزارت قانون کا 'این آر او' سے لاتعلقی کا اظہار

چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ شادی تک بچیاں زیر کفالت رہتی ہیں۔

فاروق نائیک نے جواب دیا کہ آصف زرداری 8 مقدمات میں شریک ملزم تھے اور آرٹیکل 184 کی شق کے تحت میرے موکل سے بیان حلفی طلب کیا گیا۔

جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ عوامی پیسہ عوامی مفاد سے متعلق ہے اس لیے ہم نے آرٹیکل 184 کا استعمال کیا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کرپشن مقدمات کا سارا ریکارڈ ضائع ہوگیا، کیا آپ نے خود ضائع کیا، جو دستاویزات ضائع ہوئیں کس نے کیں؟

یہ بھی پڑھیں: ’جو بڑے سمجھتے ہیں وہ پکڑے نہیں جائیں گے ہم انہیں بھی ڈھونڈ نکالیں گے‘

اس پر فاروق نائیک نے جواب دیا کہ ‘میں نے ریکارڈ کے بارے میں امکان ظاہر کیا’۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کرپشن کا ایشو نہیں ہے، ہم اپنے دائرہ اختیار کو بڑھا رہے ہیں۔

علاوہ ازیں فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ‘محترمہ بے نظیر کی قبر کا ٹرائل کیا جارہا ہے’۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ‘ہم محترمہ کے ٹرائل کا سوچ ہی نہیں سکتے، آپ نے خود اپنے دور حکومت میں محترمہ شہید ہوئیں ان کے مقدمے کا ٹرائل نہیں کرایا’۔

مزیدپڑھیں: این آر او سے قومی خزانے کو نقصان پہنچنے کے شواہد نہیں ملے، نیب

علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ عوامی دولت لوٹنا بنیادی حقوق کو متاثر کرنا ہے۔

ایک موقع پر فاروق ایچ نائیک نے عدالت سے استدعا کی کہ ‘آپ مجھے 10 منٹ دے دیں’۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس کہا کہ ‘ایسا نہ کریں کے دس منٹ آصف زرداری کی موجودگی میں دیں، آپ اثاثوں کی تفصیلات دینے سے کیوں کترا رہے ہیں’۔

آصف علی زرداری کے وکیل نے جواب دیا کہ سوموٹو افراد کے خلاف نہیں لیا جاسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: ’این آر او انتقامی سیاست کے خاتمے کے لیے بنایا تھا‘

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ‘وہ ایک عام آدمی نہیں سابق صدر پاکستان ہیں، پتہ چلنا چاہیے کہ قومی دولت کہاں ضائع ہوئی’۔

عدالت عظمیٰ نے سماعت 15 دن کے لیے ملتوی کردی۔