جنگ جو لڑی نہیں جائے گی!
پاکستان اور بھارت کے بیچ یہ تناؤ نیا نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسی کشیدگی بارہا دیکھی گئی ہے کہ جب دونوں ملکوں نے سفارتی محاذوں پر صف آرا ہوکر ایک دوسرے پر بیانات کی بوچھاڑ کردی۔ میڈیا پر دکھائی اور سنائی دینے والی دھمکیاں بھی نئی نہیں ہیں اور اس کے بعد کشمیر میں لائن آف کنڑول پر ہونے والی گولہ باری، جو کہ اب تک شروع ہوچکی ہوگی، بھی نئی نہیں ہے۔
چونکہ پاکستان اور بھارت دونوں ہی ایٹمی طاقتیں ہیں اس لیے ایک مکمل جنگ کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ تاہم سفارتی تناؤ، لائن آف کنٹرول پر کشیدگی اور ایک جنگی ماحول بنے رہنے کے نہ صرف امکانات ہیں بلکہ یہ ماحول دونوں ممالک میں برسرِ اقتدار سیاسی جماعتوں کے مفاد میں بھی ہے۔
اس ماحول کی وجہ سے بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کو درپیش مسائل سے چھٹکارہ نہ بھی ملا تو بھی ان سے جان چھڑانے کی مہلت ضرور مل جائے گی۔ تیزی سے عوامی اور عمومی شکل اختیار کرنے والے والے اس سفارتی تناؤ سے جہاں بی جے پی کو ریاستوں کے انتخابات اور پھر عنقریب آئندہ عام انتخابات میں پذیرائی مل سکتی ہے وہیں اس سے وزیرِ اعظم نریندرہ مودی کی رافیل ڈیل میں کرپشن کے الزامات کی وجہ سے بڑھتی ہوئی عوامی مخالفت میں کمی بھی آسکتی ہے۔ اگر یہ کشیدگی اور تناؤ بڑھتا ہے تو نئی دہلی کو اس سے کشمیر میں اسپیشل ایکٹس (Special Acts) ختم کرکے ریاست کو مزید اپنے قابو میں کرنے کا مواد اور جواز دونوں ہی مل سکتے ہیں۔
پڑھیے: ’بھارت! مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرو!‘
سرحد کے اس طرف جنگی ماحول سے فوری فائدہ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کو ہوگا جو اس وقت اپنے انتخابی دعوؤں سے بہت پیچھے ہے۔ اگر تناؤ بڑھتا ہے تو عوامی غصے کو نئی جہت ملے گی اور عوام عمران خان کی 100 روزہ کارکردگی پر سوال کرنے کے بجائے بھارت کو کرارا جواب دینے پر بات کررہے ہوں گے۔ بڑھتی ہوئی کشیدگی مہنگائی، بے روزگاری اور غربت میں اضافے کی وجہ بنے نہ بنے، وجہ یہی بتائی جائے گی اور اگر یہ ماحول کچھ ماہ کے لیے بنا رہتا ہے تو اس سے ترقیاتی بجٹ کم ہوگا اور دفاعی بجٹ میں اضافہ ہوگا۔
یہ تو اس نہ لڑی جانے والی جنگ کے ملکی سطح پر حاصل ہونے والے فوائد ہیں۔ تاہم اس سے عالمی سطح پر ہونے والے فوائد اور نقصانات کو بھی مدِنظر رکھنا چاہیے۔ جنگی ماحول ہوگا تو جنگی ہتھیاروں کی خرید و فروخت تیز ہوگی اور زیادہ ہتھیار بکنے کا مطلب ہے امریکا، چین اور روس سمیت تمام اسلحہ فروخت کرنے والوں کی چاندی۔
پاک بھارت کشیدگی کو بگڑتے ہوئے عالمی منظرنامے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت جہاں ان 2 ایٹمی ہمسایوں کے بیچ دھمکیوں اور دشنام طرازی کا سلسلہ جاری ہے وہیں عالمی پسِ منظر میں بھی زیادہ سکون نہیں کیونکہ امریکا نے روس پر مزید پابندیاں لگا دی ہیں جن سے نہ صرف روس بلکہ چین بھی متاثر ہو رہا اور دونوں متاثرین نے سخت جواب دینے کی دھمکی بھی دی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ امریکا اور چین کی نہ رکنے والی ٹریڈ وار یا تجارتی جنگ، امریکا کی ایران کے لیے مزید سخت حکمتِ عملی، بھارت پر ایران اور روس سے تجارت نہ کرنے لیے دباؤ وغیرہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی عالمی کشیدگی سے جڑی ہے جو بالآخر موجودہ ورلڈ سسٹم کا خاصہ ہے۔ ریاستوں کے درمیان تناؤ جیوپولیٹکس یا جغرافیائی سیاست ہے اور یہ پولیٹکس بڑی حد تک معیشت کے گرد گھومتی ہے۔ معاشی استحکام کسی بھی ریاست کی سافٹ اور ہارڈ پاور دونوں کے لیے ناگزیر ہے۔ لہٰذا بڑی ریاستیں جیسا کہ امریکا، روس اور چین ہر وقت طاقت میں اضافے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔
پڑھیے: ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت وقت کی اہم ترین ضرورت
اسلحے کے خریدار، پاکستان اور بھارت کی ایک دوسرے کو دھمکیوں کو سمجھنے کے لیے ایک نظر گزشتہ چند سالوں میں ہونے والی اسلحے کی عالمی فروخت پر ڈالیے۔ بی بی سی کے مطابق امریکا نے پچھلے 5 برسوں میں بھارت کو 5 گنا زیادہ اسلحہ فروخت کیا ہے اور اس وقت بھارت اپنی دفاعی ضروریات کا 15 فیصد امریکا سے خرید رہا ہے۔
بھارت کی روس سے اسلحے کی خرید، جو پہلے تقریباً 79 فیصد تھی اب کم ہو کر 62 فیصد رہ گئی ہے۔ اُدھر دوسری طرف 2010ء کے بعد سے امریکا کی پاکستان کو جنگی ہتھیاروں کی فروخت بُری طرح گری ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ کے مطابق یہ کمی ایک بلین امریکی ڈالر سے گر کر 21 ملین امریکی ڈالر تک آگئی ہے۔ یاد رہے کہ چین اس وقت پاکستان کو سب سے زیادہ اسلحہ فروخت کرنے والا ملک ہے۔ اگر بھارت کی فرانس کے ساتھ ریفائل ڈیل ممکنہ کرپشن کی وجہ سے ختم ہوجاتی ہے تو امکان ہے کہ بھارت جنگی جہازوں کی خرید کے لیے اگلا معائدہ امریکا کے ساتھ کرے۔
پاکستان اور بھارت کا یہ المیہ ہے کہ یہ اپنے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ یہ اقوام متحدہ اور شنگھائی تعاون تنطیم کے لیے تو امن کرسکتے ہیں لیکن اپنے کروڑوں افلاس زدگان کے لیے نہیں۔ یہ چین اور امریکا کی اسلحے کی صنعت کو بڑھانے کے لیے تو جنگ لڑسکتے ہیں لیکن سرحد کے آر پار بنیادی انسانی ضروریات سے محروم کروڑوں پاکستانیوں اور بھارتیوں کے حالاتِ زندگی بہتر بنانے کے لیے نہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ دونوں ملکوں کا برسرِ اقتدر طبقہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ ان کی بقا ادھورے امن اور نامکمل جنگ کا کھیل کھیلتے رہنے میں ہی ہے۔
عمران خوشحال راجہ کشمیریکا بلاگ کے بانی اور آن کشمیر اینڈ ٹیررازم کے مصنف ہیں۔ ان کی دوسری تصنیف دریدہ دہن ہے۔ کبھی کبھار شاعری کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس imrankhushaalraja@gmail.com ہے۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: imrankhushaal@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔