ایسا لگا جیسے ہماری بچی ہم سے جدا ہوگئی، چیف جسٹس
اسلام آباد: چیف جسٹس نے بچی کی ہلاکت پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ کوئی ہرجانہ بچی کو واپس نہیں لا سکتا جبکہ ایسا لگا جیسے ہماری بچی ہم سے جدا ہوگئی۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کراچی میں مبینہ پولیس فائرنگ سے بچی امل عمر کی ہلاکت پر ازخود نوٹس کی سماعت کی، امل کے والد اور والدہ عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ افسوسناک ہے کہ پہلے پولیس نے غلطی کی پھر ہسپتال نے۔
امل کی والدہ نے ڈکیتی، پولیس فائرنگ اور بچی کی ہلاکت کا مکمل واقعہ بیان کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بچی کو ہسپتال منتقل کرنے کے لیے ایمبولینس منگوائی تو کہا گیا کیا جناح ہسپتال میں آپ کے پاس بکنگ ہے، بچی کے گلے میں مصنوعی تنفس کا پمپ لگا تھا، انتظامیہ نے کہا یہ پمپ آپ ساتھ نہیں لے جا سکتے، اسی دوران بچی نے دم توڑ دیا۔
انہوں نے کہا کہ دو دن بعد انکوائری میں پتہ چلا کے گولی پولیس کی تھی، مشین گن کی گولی تھی، کیا ہم کشمیر، افغانستان یا شام میں رہتے ہیں جو پولیس مقابلے کے لیے مشین گن استعمال کی گئی۔
چیف جسٹس نے بچی کے والدین کے وکیل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے کا کیا حل کرنا چاہیے، کیا ہرجانہ ادا کرنا کافی ہے، اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے کیا کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہسپتالوں کے بارے میں زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا، آج بھی ہسپتال کے مالک نے آنے کی زحمت نہیں کی، جبکہ دیکھنا ہوگا پولیس والے نے کس طرح گولی چلائی۔
امل کے والدین کے وکیل نے کہا کہ ایسے واقعات میں زخمی کے علاج کا اصول سرکاری ہسپتال میں لاگو ہے، نجی ہسپتالوں پر نہیں، نیشنل میڈیکل سینٹر کراچی کا بڑا ہسپتال ہے لیکن تعجب کی بات ہے نجی ہسپتال کے پاس ایمبولینس نہیں ہے۔
پولیس کے وکیل نے کہا کہ ایمرجنسی علاج کا اطلاق نجی ہسپتالوں پر بھی ہونا چاہیے۔
سی سی پی او کراچی نے بتایا کہ میں تعزیت کرنے گیا تو والدین نے بتایا کہ پولیس کی گولی لگی تھی۔
اس موقع پر جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ یہ پولیس کی غفلت ہے، لوگوں سے بھری گلی میں کون گولی چلاتا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسٹریٹ کرائم کی روک تھام کے لیے بھاری ہتھیار نہیں ہونے چاہیئں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سی سی پی او کراچی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے بغیر تربیت پولیس والوں کو مشین گن پکڑا دی۔
سی سی پی او نے کہا کہ ہمارے پولیس والے شہید ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تربیت کی بات کر رہے ہیں کہ کب گولی چلانی ہے کب نہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے نجی ہسپتال کے منتظم کو مخاطب کرکے پوچھا آپ نے مریض کو لے جانے کے لیے کیوں کہا؟
منتظم نے بتایا کہ گولی بچی کے سر کو چیرتی ہوئی نکلی، ایسے زخم کا علاج نہیں ہوسکتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: مقابلے کے دوران پولیس کی فائرنگ سے بچی جاں بحق ہوئی، پولیس کا اعتراف
چیف جسٹس نے کہا کہ کم از کم ایمبولنس کا تو بندوبست کر دیتے، آپ صرف پیسے کمانا جانتے ہیں، اعتزاز احسن، لطیف کھوسہ بتائیں کیا کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نجی ہسپتالوں کے لیے بھی کوئی ایس او پی ہونا چاہیے، کوئی ہرجانہ بچی کو واپس نہیں لا سکتا، ایسا لگا جیسے ہماری بچی ہم سے جدا ہوگئی، ایک بچی چلی گئی لیکن باقی بچیاں تو بچ جائیں۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم ایک کمیٹی بنانا چاہ رہے ہیں، فیصل صدیقی کو انکوائری آفیسر مقرر کر دیتے ہیں، والدین کے وکلا فیصل صدیقی اور عمائمہ اس معاملے کی تفتیش کے لیے تجاویز دیں اور بتائیں کس طرح کمیٹی بنائی جائے۔
عدالت نے نجی ہسپتال کے مالک کو آئندہ سماعت پر حاضر ہونے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 27 ستمبر تک ملتوی کردی۔
ازخود نوٹس
واضح رہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایک ہفتے قبل کراچی میں گزشتہ ماہ مبینہ پولیس مقابلے کے دوران گولی لگنے سے جاں بحق ہونے والی 10 سالہ امل عمر کے واقعے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔
از خود نوٹس پولیس کی جانب سے ‘غیر ذمہ دارانہ فائرنگ اور معروف ہسپتال میں قانون کے مطابق ایمرجنسی طبی امداد کی فراہمی میں ناکامی’ پر لیا گیا۔
یاد رہے کہ امل عمر کو گزشتہ ماہ کراچی کے علاقے ڈیفنس میں پولیس اور ڈکیتوں کے درمیان ہونے والے مقابلے کے دوران گولی لگی تھی۔
بعد ازاں ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ساؤتھ جاوید عالم اوڈھو نے اعتراف کیا تھا کہ امل عمر کو لگنے والی گولی پولیس اہلکار کی جانب سے فائر کی گئی تھی۔
امل عمر کو گولی لگنے کے بعد ان کے والدین نے انہیں این ایم سی منتقل کیا جہاں طبی امداد دینے سے انکار کیا گیا جس کے بعد وہ دم توڑ گئی تھیں۔
مقتولہ کی والدہ بینش عمر کے مطابق ہسپتال انتظامیہ نے انہیں بچی کو جناح ہسپتال یا آغا خان ہستپال منتقل کرنے کو کہا تھا اور این ایم سی نے امل کو منتقل کرنے کے لیے ایمبولینس دینے سے بھی انکار کردیا تھا حالانکہ بچی کے سر پر زخم تھے۔
ڈی آئی جی جاوید عالم نے کہا تھا کہ معاملے کی تفتیش مکمل کی جا چکی ہے اور انکوائری رپورٹ کی بنیاد پر ان پولیس اہلکاروں کے خلاف مزید قانونی کارروائی کے لیے فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرنے کی ہدایت بھی کی جاچکی ہے۔