نقطہ نظر

وزیراعظم عمران خان اچانک سعودی عرب کیوں گئے؟

امریکی وفد کے دورے کے بعد وزیراعظم کا جدہ اور آرمی چیف کا بیجنگ جانا خطے میں اہم اسٹرٹیجک تبدیلیوں اور صف بندی کا حصہ ہے

تحریکِ انصاف کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وزیرِاعظم عمران خان پہلے 3 ماہ کے دوران کوئی غیر ملکی دورہ نہیں کریں گے لیکن وزیرِاعظم نے پہلا ماہ مکمل ہونے سے پہلے ہی اچانک سعودی عرب کا دورہ کرلیا۔ وزیرِاعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب سے پہلے امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو اور امریکی افواج کے سربراہ جنرل جوزف ڈنفورڈ نے اسلام آباد کا دورہ کیا اور واپسی پر دِلّی یاترا بھی کی۔

امریکا کے اعلیٰ سطح وفد کے دورے کے بعد وزیرِاعظم عمران خان کا جدہ جانا اور آرمی چیف کی بیجنگ روانگی خطے میں اہم اسٹریٹجک تبدیلیوں اور صف بندی کا حصہ ہے۔ وزیرِاعظم عمران خان کے دورے سے پہلے سعودی عرب کی طرف سے ریلیف پیکج، ادھار یا سستے تیل کی فراہمی، اسلامی ترقیاتی بینک کی طرف سے آسان شرائط پر قرض کی منظوری کی قیاس آرائی ہوتی رہی، لیکن دورے کے دوران یا بعد کی بریفنگز میں ایسا کوئی اعلان سامنے نہیں آیا۔

اسلام آباد واپسی پر وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے سی پیک میں سعودی عرب کی شمولیت کی اطلاع دی لیکن تفصیلات دینے سے گریز کیا۔

وزیرِاعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد نے ایک ٹوئیٹ کے ذریعے خبر دی کہ سعودی عرب گوادر میں 22 ارب کی سرمایہ کاری کے ساتھ آئل سٹی تعمیر کرے گا۔

اس منصوبے کی جزئیات طے کرنے کے لیے شاہ سلمان نے اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے جو اکتوبر کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد کا دورہ کرے گی۔ سعودی عرب کی سی پیک میں شمولیت اچانک نہیں جیسا کہ عام طور پر تصور کیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب اور ایران نے 2016ء میں ہی سی پیک میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اگست 2017ء میں سعودی سفیر نواف سعید احمد المالکی نے پاکستانی میڈیا سے انٹرویو میں اس کا برملا اظہار بھی کیا تھا۔

وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے سی پیک میں سعودی عرب کی شمولیت کی اطلاع دی

پاکستان میں نئی حکومت بننے کے بعد ایک ماہ کے اندر خطے میں تیزی سے ہونے والی پیش رفت جنوبی ایشیا میں نئے تشکیل پاتے اتحادوں کا تسلسل ہے۔ جنوبی ایشیا میں نئے اتحادوں کی تشکیل کا عمل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ صدارت کے ساتھ تیز ہوا جو اب افغانستان میں امریکی انتظامیہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے پر مزید تیز ہوگیا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی ایشیا میں نئی پالیسی کے تحت پاکستان کی امداد اس سال کے پہلے دن معطل کرنے کا اعلان کیا۔ دنیا کے اس حصے کو امریکا اپنے انتظامی امور میں ’پیسفک کمانڈ‘ کہتا تھا، لیکن اب اس کا نام بدل کر ’انڈو پیسفک کمانڈ‘ کردیا گیا ہے۔ یہ 2 واضح اشارے تھے کہ جنوبی ایشیا میں امریکا کی ترجیحات اور اتحادی بدل گئے ہیں۔

پڑھیے: وزیرِاعظم عمران خان کی سعودی فرمان روا شاہ سلمان سے ملاقات

خطے میں چین کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ بیجنگ نے دنیا پر اقتصادی غلبے کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا اعلان 2013ء میں کیا اور اب تک 71 ملک اس منصوبے کا حصہ بن چکے ہیں۔ امریکا چین کے اس منصوبے کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ تصور کرتا ہے، اور اس منصوبے سے دنیا بھر میں نئے بلاک اور اتحاد وجود میں آرہے ہیں۔ چین کو دباؤ میں رکھنے کے لیے امریکا ماضی میں بھارت کو سوویت یونین کا اتحادی ہونے کے باوجود رعایتیں دیتا رہا ہے۔ واشنگٹن نے نئی دہلی کے ایٹمی پروگرام پر بھی آنکھیں بند رکھیں۔ این پی ٹی (Treaty on the Non-Proliferation of Nuclear Weapons) پر دستخط کے معاملے پر بھی امریکا نے کبھی بھارت کو مجبور نہیں کیا تھا۔

سرد جنگ کے بعد اب تجارتی جنگ میں امریکا دیرینہ اتحادی پاکستان کو چھوڑ کر بھارت کو فوجی اور معاشی شراکت دار بنا چکا ہے۔ بھارت بھی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی وجہ سے خطے میں اثر و رسوخ کھو رہا ہے۔ بھارت ہمیشہ سے اس خوف کا شکار رہا ہے کہ چین خطے میں اپنی پالیسیوں اور شراکت داری کے ذریعے اس کا گھیراؤ کر رہا ہے، اب بھارت کا یہ خوف حقیقت بن کر سامنے آ رہا ہے۔

تصویر بشکریہ: نوید صدیقی

چین نے 2011ء میں مالدیپ میں سفارتخانہ قائم کیا اور مختصر عرصے میں وہ بھارت کو وہاں سے نکال باہر کرچکا ہے۔ چین نے مالدیپ کے ساتھ آزادانہ تجارت کا معاہدہ کیا اور دارالحکومت مالی میں کئی انفرا اسٹرکچر منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ مالدیپ کے صدر عبداللہ یامین چین کی طرف واضح جھکاؤ رکھتے ہیں۔ چین کے بحری جہاز مالدیپ میں لنگر انداز ہونے پر بھارتی احتجاج کو صدر عبداللہ یامین رد کرچکے ہیں۔ بھارت کے دست نگر رہنے والا نیپال بھی نئی دہلی کی بدمعاشی سے تنگ آکر چین کے زیرِ اثر جا رہا ہے۔

90ء کی دہائی میں خطے کے چھوٹے ممالک بھارت کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے کیونکہ ان ملکوں کے پاس اس وقت کوئی متبادل آپشن نہیں تھا۔ بھارت اس سے پہلے خطے کے ملکوں کو اپنے مشترکہ ثقافت کے رشتے اور بڑا ملک ہونے کے ناطے اپنے زیرِ اثر رکھتا تھا۔ بھارت چھوٹے ملکوں کی خارجہ پالیسی پر بھی اثر انداز ہوتا اور خطے میں مفادات پورے کرتا تھا جس کی مثال سارک کا پلیٹ فارم ہے۔ بھارت کے کہنے پر 3 ملکوں نے اسلام آباد میں سربراہی کانفرنس کا بائیکاٹ کیا اور سارک غیر فعال ہو کر رہ گئی۔

چین نے جب سے خود اختیار کردہ تنہائی ختم کی ہے تب سے خطے کے چھوٹے ملکوں کو متبادل آپشن مل گیا ہے۔ چین کی 15 ٹریلین ڈالر کی معیشت چھوٹے ملکوں کو رعایتیں دینے کے قابل ہے اور چین بدلے میں ان سے کچھ بھی نہیں مانگ رہا۔ چین کا ون پارٹی سیاسی نظام بھی پالیسیوں میں استحکام کا ضامن ہے جبکہ بھارت کی کمزور اور مخلوط حکومتیں اپنے وعدے پورے کرنے کے قابل نہیں ہوتیں۔

بھارت نے صورت حال کو بھانپتے ہوئے لک ایسٹ پالیسی، خلیج بنگال تعاون کی تنظیم (BIMSTEC) جیسے اقدامات کیے ہیں، لیکن بھارت کے یہ اقدامات ابھی تک چین کے اثر و رسوخ کا توڑ نہیں کرپائے۔ افغانستان میں انفرا اسٹریکچر منصوبے اور ایران کی چاہ بہار بندرگاہ میں سرمایہ کاری بھارت کے اہم اقدامات ہیں۔ افغانستان میں بھارت نے کافی ہمدرد پیدا کیے ہیں لیکن اب بھی افغانستان کا امن و استحکام پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔

تصویر بشکریہ: ثناء اللہ

ایران کی چاہ بہار بندرگاہ اور ایرانی تیل کی خریداری نئی دہلی اور تہران میں قربت پیدا کرتی ہے لیکن ایران نومبر میں امریکی مالیاتی پابندیوں کے نفاذ کے بعد صرف بھارت پر انحصار نہیں کرپائے گا اور اسے امریکا کے حریف چین کی مدد لینا پڑے گی جس کے لیے ابھی سے رابطے ہوچکے ہیں اور چین ایران سے تیل کی خریداری کے متبادل انتظامات میں مصروف ہے تاکہ واشنگٹن کی پابندیوں کی زد میں نہ آسکے۔

چین نے عرب دنیا کو ماضی میں کبھی اہمیت نہیں دی تھی لیکن اب چین مشرقِ وسطیٰ میں بھی اہم کھلاڑی بن کر سامنے آ رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ پر روایتی اثر و رسوخ رکھنے والا امریکا اگر فوری توجہ نہ دے پایا تو عرب دنیا میں بڑھتے ہوئے خلفشار اور افراتفری کو چین اپنے حق میں مؤثر طور پر استعمال کرنے کے قابل ہوجائے گا۔

ماضی میں عرب دنیا پر امریکی اثر و رسوخ کی وجہ تیل کی خریداری تھی۔ امریکا نے جب سے تیل کی ملکی پیداوار بڑھائی ہے اور غیر ملکی تیل پر انحصار کم کیا ہے، چین عرب دنیا میں تیل کا بڑا خریدار بن کر ابھرا ہے۔ چین نے تیل خریداری کو ایک خطے تک محدود نہیں رکھا، وہ افریقا سے بھی تیل خرید رہا ہے اس کے باوجود وہ سعودی، عراقی اور ایرانی تیل کے 3 بڑے درآمد کنندگان میں شامل ہوگیا ہے۔

چین کی تیل کی بڑھتی ضروریات نے عرب دنیا کو بیجنگ کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ چین تیل کا بڑا خریدار بننے کے بعد اب مشرقِ وسطیٰ پر اثر انداز ہورہا ہے جس کی مثال حال ہی میں سعودی عرب سے تیل کی قیمت کے تنازع پر بیجنگ کی دھمکی ہے۔ بیجنگ نے تیل قیمت کا تنازع حل نہ ہونے کی صورت میں ریاض سے تیل خریداری بند کرنے کی تنبیہ جاری کی تھی۔ چین تیل خریداری کے علاوہ عرب دنیا میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے۔ چین اور سعودی عرب اسٹریٹجک تعاون کے جامع معاہدے پر دستخط کرچکے ہیں۔ چین خلیج تعاون تنظیم کے ساتھ فری انڈسٹریل زون کے قیام پر کام کررہا ہے۔ چائنہ ریلوے کنسٹرکشن کوآپریشن سعودی عرب میں بڑے منصوبوں کی تعمیر میں مصروف ہے۔

تصویر بشکریہ پی ٹی آئی ٹوئیٹر

عرب ممالک اب تیل پر انحصار کم کرکے معیشت کو فروغ دینے کے منصوبے تلاش کر رہے ہیں۔ سعودی عرب اور اردن اپنے ترقیاتی منصوبوں کو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ساتھ جوڑنے کے خواہشمند ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ چین نے مارچ 2017ء میں تیل، متبادل توانائی اور خلا کے شعبوں میں تعاون کے 65 ارب ڈالر کے سمجھوتوں پر دستخط کیے۔ یہ سمجھوتے شاہ سلمان کے دورہ بیجنگ کے دوران طے پائے۔

نیو سوئز کینال منصوبے پر چین اور مصر مل کر کام کر رہے ہیں۔ اومان میں چین نے 10.7 ارب ڈٖالر کی لاگت سے چین اومان انڈسٹریل سٹی منصوبہ بنایا ہے جس میں یومیہ 2 لاکھ 35 ہزار بیرل تیل صفائی کی صلاحیت والی ریفائنری کا منصوبہ بھی شامل ہے۔

چین عرب دنیا کے ساتھ معاشی منصوبوں پر کام کے ساتھ ساتھ ایران اور اسرائیل کے ساتھ بھی تعلقات کو فروغ دے رہا ہے۔ چین نے ایران پر امریکی پابندیوں کے باوجود اپنے مالیاتی ادارے سی آئی ٹی آئی سی (CITIC) کے ذریعے 10 ارب ڈالر کی کریڈٹ لائن کھول رکھی ہے۔ 2017ء میں چین ایران تجارت کا حجم 37 ارب ڈالر سے بھی بڑھ گیا۔ امریکی پابندیاں دوبارہ نومبر میں نافذ ہونے جارہی ہیں اس کے باوجود بیجنگ تہران کے ساتھ معاشی روابط کو فروغ دے رہا ہے۔

عرب دنیا میں چین کے روابط معیشت تک محدود نہیں رہے بلکہ بیجنگ اب علاقائی تنازعات میں بھی دخیل ہو رہا ہے۔ چین نے شام میں صدر بشارالاسد کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے لیڈران کے امن سمپوزیم کی میزبانی کرچکا ہے۔ چین کی بحریہ آبنائے ہرمز اور سوئز کینال میں گشت کرتی رہتی ہے۔ چین ایران کے ساتھ مشترکہ بحری مشقیں کرچکا ہے اور جبوتی کی طرح جلد کوئی اور بحری اڈا بھی بنا سکتا ہے۔ چین سعودی عرب میں ڈرونز کی تیاری کے معاہدے پر بھی دستخط کرچکا ہے۔ چین عرب دنیا کے لیے ہائی ٹیک لیکن سستے اسلحے کا بھی نیا سپلائر ہے۔

پڑھیے: وزیرِاعظم عمران خان سے چین اور سعودی عرب کے وزرا کی ملاقاتیں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسئلہ فلسطین کا حل تھوپنے کے چکر میں مشرقِ وسطیٰ میں بے چینی کا باعث بن رہے ہیں۔ فلسطینی مہاجرین کی مدد کے لیے قائم اقوام متحدہ کے ادارے کو فنڈز کی بندش امریکا کا نیا اقدام ہے جو واشنگٹن کے عزائم پر شکوک کو بڑھا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کی طرف سے نیٹو ممالک کو اپنے دفاعی اخراجات ادا نہ کرنے کے طعنے تاریخ کے کامیاب ترین فوجی اتحاد کے مستقبل کو مخدوش بنا رہے ہیں اور اس حوالے سے نیٹو ممالک سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا نے جو عالمی نظام تشکیل دیا تھا اب خود اس نظام کو جڑ سے اکھاڑنے پر تلا ہے۔ مغربی ماہرین سوال اٹھا رہے ہیں کہ ٹرمپ کے دور میں کیا دنیا ایک بار پھر جنگل کے نظام کی طرف واپس جا رہی ہے؟ ایسا نظام جس میں ملکوں کے درمیان مفادات کی جنگ ہوگی، قومیت پرستی ابھرے گی اور دنیا قبائلی نظام کی طرف لوٹ جائے گی۔

وزیرخزانہ اسد عمر نے سعودی ہم منصب محمد بن عبداللہ سے ملاقات کی جہاں مالی پہلوؤں اور اقتصادی تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا—فوٹو:پی ٹی آئی ٹویٹر

70 سال پہلے تشکیل دیے گئے عالمی نظام نے امریکا کو دنیا کی قیادت کے قابل بنایا، اگر یہ نظام لپیٹا گیا تو خود امریکا کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ یہ خطرہ مشرق وسطیٰ، روس اور چین سے بھی بڑا خطرہ ہوگا۔ یورپ میں ابھرتی ہوئی قومیت پرستی بھی خطرہ بن رہی ہے اور یورپ کو ایک بار پھر 1930ء کے دور میں واپس دھکیل سکتی ہے۔ بریگزٹ (BREXIT) بھی اس قومیت پرستی کا ایک مظہر ہے۔

نیٹو میں پڑتی دراڑوں کے ساتھ ساتھ ایشیا میں بدلتی صورت حال میں امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو اور امریکی افواج کے سربراہ جنرل جوزف ڈنفورڈ نے اسی ماہ اسلام آباد کا دورہ کیا۔ مائیک پومپیو نے تعلقات کی از سرِ نو بحالی کا یقین دلایا اور واضح کیا کہ امریکا کو پاکستان سے کیا توقعات ہیں۔

امریکی توقعات افغانستان کے حوالے سے نئی نہیں تاہم اہم بات یہ ہے کہ امریکا کو اب افغانستان سے جلد باعزت واپسی کا راستہ درکار ہے اور کہا جا رہا ہے کہ امریکا نے زلمے خلیل زاد کو اسی لیے دوبارہ میدان میں اتارا ہے۔ زلمے خلیل زاد کا ٹاسک یہ ہے کہ وہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائیں اور افغانستان کے صدارتی الیکشن کو کامیاب بنا کر واشنگٹن کو واپسی کا راستہ مہیا کریں۔

پڑھیے: سعودی عرب کی کینیڈا سے ناراضی، کیا کینیڈا واقعی تنہا رہ گیا؟

اسلام آباد سے امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نئی دہلی پہنچے جہاں بھارت امریکا دفاعی معاہدہ طے پایا جس کے تحت نئی دہلی کو امریکا کے جدید اور حساس اسلحہ کی خریداری کا حق ہوگا۔ دونوں ملکوں کی مسلح افواج مشترکہ مشقیں بھی کریں گی اور امریکا بھارت کو ایک اور ایئرکرافٹ کیریئر بنانے میں بھی مدد دے گا۔ امریکا نے بھارت کو ایران سے تیل کی خریداری پر استثنیٰ کا بھی اشارہ دیا تاہم یہ کہا گیا کہ تیل خریداری کو کم سے کم سطح پر لایا جائے۔

امریکی وزیرِ خارجہ کے دورے کے فوری بعد چین کے وزیرِ خارجہ وانگ ژی پاکستان پہنچے اور شاہ محمود قریشی کے علاوہ وزیرِاعظم اور آرمی چیف سے ملاقاتیں کیں۔ چین کے وزیرِ خارجہ کے دورے کے بعد عمران خان سعودی عرب اور آرمی چیف بیجنگ پہنچے۔ آرمی چیف کے دورہ بیجنگ کے دوران سی پیک ایجنڈے پر سرِفہرست رہا جبکہ دونوں ملکوں کے فوجی تعلقات بڑھانے پر بھی بات ہوئی اور چین کے سینئر ترین فوجی کمانڈر نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے گفتگو میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں فوجی تعاون کو ریڑھ کی ہڈی قرار دیا۔

وزیرِاعظم عمران خان نے عرب اخبار سعودی گزٹ کو انٹرویو دیا جس میں انہوں نے کہا کہ یمن کے حوثی باغیوں کے حملے کی صورت پاکستان سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ وزیرِاعظم عمران خان کے اس بیان کی مزید وضاحت نہیں کی گئی۔ پاکستان کا ہمیشہ سے مؤقف ہے کہ وہ مقاماتِ مقدسہ کو خطرے کی صورت میں دفاع کرے گا لیکن علاقائی تنازعات میں پاکستان نے براہِ راست فریق بننے سے گریز کیا ہے۔

چین نے 2 روایتی حریفوں سعودی عرب اور ایران کے ساتھ بیک وقت تعلقات میں ایسا توازن قائم کر رکھا ہے کہ کسی بھی فریق کو کوئی شکوہ نہیں۔ سی پیک میں سعودی عرب کی شمولیت سے ایران کو پریشانی کی قیاس آرائی کی جا رہی ہے لیکن اس کی اہمیت ایک واہمے سے زیادہ نہیں، بلکہ زیادہ امکانات یہ ہیں کہ ایران بھی کسی مرحلے پر سی پیک کا حصہ بن جائے۔

2013ء میں شروع ہونے والے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی تکمیل کا ہدف 2049ء ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کس قدر کامیاب رہتا ہے اس کے لیے شاید 30 سال سے زائد عرصہ انتظار کرنا پڑے گا، تاہم بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے نے پہلے سے موجود عالمی نظام پر اثرانداز ہونا شروع کردیا ہے۔

آصف شاہد

دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔