نقطہ نظر

جب اساتذہ کے سامنے سے گزرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی

گھروں میں پڑھانے والی خواتین کا انداز دل چسپ ہوتا کہ پڑھانے کے ساتھ ساتھ امورِ خانہ داری بھی جاری رہتے۔

ہوتے تو وہ گھر ہمارے گھر کے اریب قریب ہی، مگر ان کی حیثیت ہمارے لیے یک سر مختلف ہوتی۔ یہ ذکر 1990ء کی دہائی تک اپنے بچپن بِتانے والے بچوں سے آپ بہ خوبی سن سکتے ہیں، جو اپنے محلے کے گھروں میں پڑھنے کے واسطے بٹھائے جاتے تھے۔

ان گھروں کے لیے عموماً ٹیوشن کا لفظ استعمال ہوتا تھا جبکہ 'مسیت' کا لفظ بچے محلے کے اُن گھروں کے لیے استعمال کرتے تھے، جہاں وہ کلام پاک پڑھنے جاتے تھے۔

بچپن میں ہمارے ذہنوں پر اِن گھروں کا ایک کرخت سا تصور غالب رہتا تھا کیوں کہ وہاں سبق یاد نہ ہونے پر خوب سرزنش کی جاتی تھی اور کبھی کبھی سزا کے طور پر کھڑا بھی کر دیا جاتا۔ بہت سی ایسی 'دھمکیاں' بھی دی جاتی تھیں جن سے فقط ڈرانا مقصود ہوتا، مثلاً مرغا بنا کر کمر پر ’سِل‘ (وہ چوڑا سا چَپٹا پتھر جس پر چٹنیاں اور مسالے وغیرہ ایک ’ڈی‘ کے شکل کے بَٹّے سے پیسے جاتے تھے) رکھ دی جائے گی۔ بہت سے مواقع پر بات فقط مرغا بنانے تک ہی پہنچ پاتی۔

ہمارے بچپن کے زمانے میں آج کی نرسری، کے جی طرح کی ساری کلاسیں انہی گھروں میں ہوا کرتی تھیں اور ہر بچے پر اسکولوں اور رسمی تعلیمی اداروں سے زیادہ توجہ دی جاتی تھی۔ ہم نے بھی لکھنے پڑھنے کے بنیادی رموز ایسے ہی گھروں سے سیکھے جو آج بھی ناقابلِ فراموش ہیں۔

پڑھیے: وہ بچپن کی عیدیں گئیں تو گئیں کہاں؟

کہتے ہیں کہ گھروں میں کلام پاک پڑھنے والیوں کے تلفظ درست نہ ہوتے تھے مگر خوش قسمتی سے ہمیں قرأت کے آداب بھی خوب سکھائے گئے کہ کہاں ٹھہرنا ہے، کس لفظ کو کس طرح ملانا ہے، زبر، زیر، پیش، جذم، تشدید اور کھڑی زبر، زیر اور مد وغیرہ کو ادا کرنے کے کیا آداب ہیں۔

اُس زمانے کی ’مسیت‘ میں یہ روایت تھی کہ پہلے پڑھے گئے پچھلے سپاروں میں سے روزانہ ایک ایک سپارہ ضرور پڑھتے۔ اسے ہم اپنی زبان میں ’خانکی‘ کہتے جو کہ دراصل ’خواندگی‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے، جس کے معنی پڑھنے کے ہیں۔

روزانہ ’خانکی‘ کے بعد ہم گزشتہ روز ملنے والا سبق یاد کرتے یا دُہراتے۔ جس کے بعد سبق سنانے کا مرحلہ ہوتا۔ سبق یاد ہوا تو ہی اگلا سبق ملے گا ورنہ نہیں۔ نیا سبق دینے کے لیے کبھی سپارے پر قلم سے کوئی نشان نہیں لگایا۔ گو کہ وہاں 5، 6 بچے ہی پڑھتے تھے، لیکن مسیت والی ’خالہ‘ سب کا سبق ویسے ہی ذہن نشین رکھتیں۔ سبق یاد کروانے کے لیے وہ کئی بار باآواز بلند پڑھایا کرتیں۔ پہلے باقاعدہ ہجّے کرواتیں، ہجّے مشکل ہوتی تو مدد کرتیں، اس کے بعد روانی میں پڑھاتیں۔ اس کے بعد ہی چھٹی ملنے کی توقع ہوتی جو اُس عمر میں ہمیں عمر قید سے رہائی کی طرح معلوم ہوتی۔

گھروں کی ان استانیوں سے ایسا ڈر ہوا کرتا تھا کہ کبھی نگاہیں چار بھی ہو جاتیں تو دیر تک جھکی رہتیں۔ ہم اپنی گلی کے ایک ایسے ہی گھر میں پڑھے۔ اس گھر کے رعب کے سبب ہم اپنے گھر کی ڈیوڑھی پھلانگتے ہی محتاط ہو جاتے۔ حد تو یہ تھی کہ اُس گھر کے آگے سے گزرتے بھی بہت کم تھے کہ کہیں خالہ دیکھ نہ لیں اور کسی بات پر ڈانٹ نہ دیں۔ زیادہ تر اپنے گھر کے پہلو والے راستے سے نکلتے۔ کبھی امّی یا ابو کا ہاتھ پکڑ کر یہاں سے نکلتے تو کوشش ہوتی کہ بس جلدی سے اس گھر کے آگے کا رستہ کٹ جائے۔

اُس گھر کے سامنے ہماری گلی اتنی چوڑی تھی کہ بچے اکثر گلی میں اس طرح وکٹ لگا کر کرکٹ کھیلتے کہ ’نان اسٹرائیکر اینڈ‘ عین اسی گھر کے پچھلے دروازے پر ہوتا۔ جب کبھی پِچ کے لیے یہ جگہ منتخب ہوئی، ہم نے فوراً رخصت لی اور کوئی بہانہ کر کے دائیں بائیں ہو گئے۔ اب یار لوگوں کو وجہ بتاتے تو خوامخواہ ہمارا ’ریکارڈ‘ لگتا۔

مزید پڑھیے: ایک الگ سا بچپن

اگر آپ بچپن میں اپنے گھر کے کسی نزدیکی گھر میں پڑھے ہیں تو بخوبی اندازہ ہوگا کہ گھروں کے یہ اساتذہ جب سر راہ دکھائی دے جاتے تھے، تو کس طرح ڈر کے مارے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی تھی اور کوشش کی جاتی کہ سامنا نہ ہو، اس لیے رفو چکر ہو جاتے تھے یا کہیں چھپ جاتے۔

شادی بیاہ کی بہت سی تقاریب میں بھی یہ اساتذہ ہوتے۔ اس لیے ان تقاریب میں بچے ان کے سامنے دبک کر بیٹھتے، یا ان کی کوشش ہوتی کہ ایسی تقاریب میں جایا ہی نہ جائے۔

اِن گھروں میں پڑھانے والی خواتین کا انداز بھی دل چسپ ہوتا کہ سبزی بنانے، دال، چاول چُننے سے باورچی خانے کے امور بھی ساتھ ساتھ جاری رہتے۔ اکثر پیاز بھی وہیں کترے جاتے، جس کی جھانج سے آنکھیں بھی بہی جاتیں۔ اسکول کی چھٹیوں، ہڑتالوں اور دیگر تعطیلات میں ان ٹیوشنوں کا وقت اور بڑھ جاتا۔

شاید اب بھی محدود پیمانے پر ایسے گھر موجود ہوں، مگر اب تو ’بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے‘ اس لیے وہ رعب اور ادب والی بات نہیں ہے۔ گھروں میں پڑھنے والوں کے علاوہ ہم نے تو اسکول کے زمانے میں بھی راستے میں اپنے اساتذہ کو دیکھ کر راستہ بدلا ہے، ان کے احترام کے سبب ہمت نہیں ہوتی تھی کہ سامنے سے گزریں۔

شاید وہ سب ہمارے دور کی ہی باتیں تھیں، اور ہمارے ہی دور میں ختم ہوگئیں!

رضوان طاہر مبین

بلاگر ابلاغ عامہ کے طالب علم ہیں۔ برصغیر، اردو، کراچی اور مطبوعہ ذرایع اِبلاغ دل چسپی کے خاص میدان ہیں۔ ایک روزنامے کے شعبۂ میگزین سے بطور سینئر سب ایڈیٹر وابستہ ہیں، جہاں ہفتہ وار فیچر انٹرویوز اور ’صد لفظی کتھا‘ لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔