پاکستان

وزیر خارجہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے امریکا روانہ

سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ بھی شاہ محمود قریشی کے ہمراہ ہیں، وزیر خارجہ 29 ستمبر کو اجلاس سے خطاب کریں گے۔

اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے امریکا روانہ ہوگئے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ بھی امریکا روانہ ہوئیں۔

وزیر خارجہ کی امریکا میں مصروفیات کے حوالے سے دفتر خارجہ نے بتایا تھا کہ شاہ محمود قریشی واشنگٹن میں پاکستانی کمیونٹی کے پروگرام میں شرکت کریں گے جبکہ وہ واشنگٹن میں 2 روزہ قیام کے بعد نیویارک جائیں گے، جہاں وہ 24 ستمبر سے نیو یارک میں ہونے والے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کریں گے۔

اس کے علاوہ 26 ستمبر کو وزیر خارجہ سارک وزراء خارجہ کونسل کے اجلاس میں بھی شرکت کریں گے جبکہ 29 ستمبر کو پاکستانی وزیر خارجہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کریں گے۔

مزید پڑھیں: وزرائے خارجہ ملاقات منسوخ، 'پاکستان کا مثبت رویہ بھارت میں سیاست کی نذر ہوگیا'

یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں وزیر خارجہ مختلف امور سمیت مسئلہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کا موقف پیش کریں گے۔

دفتر خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا کہ شاہ محمود قریشی نیویارک میں قیام کے دوران مختلف ممالک کے وزراء خارجہ سے ملاقاتیں کریں گے، جن میں چین، روس، ترکی، مشرق وسطیٰ کے ممالک کے وزراء خارجہ شامل ہیں۔

بیان کے مطابق اس کے علاوہ امریکا میں اپنے قیام کے دوران پاکستانی وزیر خارجہ بی بی سی، نیویارک ٹائمز اور الجزیرہ کو انٹرویو بھی دیں گے اور 29 ستمبر کے بعد شاہ محمود قریشی واشنگٹن واپس روانہ ہوں گے۔

دفتر خارجہ نے بتایا کہ واشنگٹن میں پاکستانی وزیر خارجہ امریکی ہم منصب مائیک پومپیو سے ملاقات کریں گے اور یہ ملاقات یکم اکتوبر کے بعد ہوگی۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ مائیک پومپیو نے پاکستانی وزیر خارجہ کو امریکا کے دورے کی دعوت دی تھی، جسے انہوں نے قبول کیا تھا۔

دفتر خارجہ کے مطابق شاہ محمود قریشی 3 اکتوبر کے بعد وطن واپس پہنچیں گے۔

’بھارت نے سفارتی آداب کو جس طرح روندا اس کی مثال نہیں ملتی‘

امریکا روانگی کے موقع پر ایئرپورٹ پر غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بہت افسوس ہوا کہ بھارت نے ہمارے خیرسگالی کے جذبے کو اپنا کر پھر اس سے انکار کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم دیانت داری سے یہ سمجھتے تھے کہ پورے خطے کا فائدہ اس بات میں ہیں کہ دونوں ممالک مل بیٹھ کر تمام معاملات کا حل تلاش کریں۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارت نے ملاقات پر آمادگی کا اظہار کیا اور پھر اس سے انکار کرنے کے لیے انہیں جواز تلاش کرنے پڑے اور پوسٹل اسٹیمپس کا بہانہ بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے سفارتی آداب کو جس طرح روندا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کی ملاقات بھی شیڈول تھی، تاہم بھارت نے اس ملاقات کی حامی بھر کر انکار کردیا۔

اس ملاقات کی درخواست وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے بھارتی حکام کو 2 علیحدہ خطوط میں کی گئی تھی۔

20 ستمبر کو ان خطوط کے جواب میں بھارت نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاک ۔ بھارت وزرائے خارجہ کی ملاقات پر رضامندی ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کی سائڈ لائن میں باہمی طور پر طے کردہ تاریخ اور وقت پر ہوگی۔

تاہم اس جواب کے ایک روز بعد 21 ستمبر کو ہی بھارت اپنے بیان سے مکر گیا اور پاک-بھارت وزرائے خارجہ ملاقات منسوخ کردی۔

بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے بیان دیا کہ 'حالیہ واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان سے کسی بھی طرح کے مذاکرات بے معنی ہیں'۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'پاکستان کی جانب سے تعلقات کے نئے آغاز کے لیے مذاکرات کی تجویز کے پیچھے چھپا اس کا مکروہ ایجنڈا سامنے آگیا ہے اور وزیر اعظم عمران خان کا اصل چہرہ پوری دنیا نے دیکھ لیا ہے'۔

ساتھ ہی بھارت نے اس ملاقات کی منسوخی کی وجہ مقبوضہ کشمیر میں 3 سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی ہلاکت اور پاکستان کی جانب سے کشمیری مجاہد برہان وانی کی تصویر کے پوسٹل اسٹیمپس جاری کرنے کو قرار دیا تھا۔

دوسری جانب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کا اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ہم منصب سے ملاقات سے معذرت پر حیرانی کا اظہار کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان خطے کی بہتری چاہتا ہے، خبر سن کر افسوس ہوا، لگتا ہے کہ پاکستان کا مثبت رویہ بھارت میں سیاست کی نذر ہوگیا‘۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارت کے اس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت میں آنے والے انتخابات کی تیاری کی جارہی ہے، ہندوستان اپنے خول سے باہر نہیں نکل پارہا ہے۔

علاوہ ازیں بھارتی موقف پر پاکستان کے دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت کو بھارت کی وزارت برائے خارجہ امور کی جانب سے دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کو منسوخ کرنے کے اعلان پر افسوس ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کا وزرائے خارجہ کی ملاقات منسوخ کرنے کا اعلان افسوس ناک قرار

دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ 'پہلی بات یہ کہ انڈین بارڈر سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کے اہلکار کی مبینہ ہلاکت کے 2 روز بعد بھارت کی جانب سے وزرائے خارجہ کی ملاقات کی حامی بھری گئی تھی، پہلی مرتبہ جب یہ معاملہ اٹھایا گیا تھا تو پاکستان رینجرز نے بی ایس ایف کو واضح کیا تھا کہ پاکستان اس معاملے میں شامل نہیں جبکہ رینجرز نے بی ایس ایف اہلکار کی لاش تلاش کرنے کی پیشکش بھی کی تھی'۔

بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ 'دوسری بات یہ کہ بھارتی حکام کے بیان میں جس ڈاک ٹکٹ کا ذکر کیا گیا ہے وہ 25 جولائی 2018 کے انتخابات سے قبل جاری کیے گئے تھے، جس کے بعد عمران خان ملک کے وزیراعظم بننے، مذکورہ ڈاک ٹکٹ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اُجاگر کرنے کے لیے جاری کیے گئے تھے'۔