نواز شریف، مریم نواز رہائی کے بعد دیگر رہنماؤں کے ساتھ نور خان ایئرپورٹ میں موجود ہیں — فوٹو: جاوید حسین
انہوں نے کہا تھا کہ پارٹی قائد نواز شریف کو کیسز میں الجھانے کا مقصد انہیں جولائی میں ہونے والے انتخابات سے دور رکھنا اور وزیرِ اعظم عمران خان کی جیت کے لیے راہ ہموار کرنا تھا۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا معطلی کے فیصلے پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے بھی ردِ عمل سامنے آیا، پی ٹی آئی کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا، جس میں وفاقی وزیرِ اطلاعات اور پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں عدالتیں آزاد ہیں اور ہم عدالتوں کا مکمل احترام کرتے ہیں، ابھی معاملہ مزید آگے بڑھے گا اور قانون یقیناً اپنا راستہ بنائے گا‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پہلے فیصلوں کی طرح آج کے فیصلے کا احترام بھی واجب سمجھتے ہیں‘۔
پس منظر
خیال رہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف سابق وزیرِ اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کی جانب سے اپنی سزاؤں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کی گئیں تھیں جنہیں 16 جولائی کو سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا تھا۔
اس سے قبل 17 اگست کو سزا معطلی کی درخواستوں میں تاخیری حربے استعمال کرنے پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی قومی احتساب بیورو کو 10 ہزار روپے جرمانہ کیا تھا۔
واضح رہے کہ 20 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے مجرمان کی جانب سے سزا کے خلاف دائر کی گئیں اپیلوں پر سزا معطلی کا فیصلہ مؤخر کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کو انتخابات سے باہر کرکے عمران خان کیلئے راہ ہموار کی گئی،احسن اقبال
عدالتی چھٹیوں کے بعد اس کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا تھا، جس کے بعد جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں نیا بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔
گزشتہ روز سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ اگر پروسیکیوٹر نے دلائل مکمل نہیں بھی کیے تب بھی مجرمان کی درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ 15 ستمبر کو نیب نے ہائی کورٹ کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطل کرنے سے روکنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
نیب کی جانب سے دائر کی جانے والی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ہائی کورٹ مجرمان کی سزا معطل نہیں کرسکتی، جبکہ عدالتِ عالیہ میں استغاثہ کو نوٹس جاری کیے بغیر سماعت جاری ہے۔
درخواست کے مطابق نیب کا موقف لیے بغیر شریف فیملی کی سزا معطل نہیں کی جاسکتی جبکہ ہائی کورٹ کو سزا معطلی کا اختیار بھی نہیں ہے، اور استدعا کی کہ ہائی کورٹ کو درخواستوں پر فیصلہ کرنے سے روکا جائے۔
بعدِ ازاں 17 ستمبر کو سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو ایون فیلڈ ریفرنس کی سزا کے خلاف درخواست کی سماعت روکنے کے لیے نیب کی دائر کردہ اپیل مسترد کردی تھی۔
مزید پڑھیں: ’معاملہ آگے بڑھے گا اور قانون یقیناً اپنا راستہ بنائے گا‘
دورانِ سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ یہ ہائی کورٹ کی مرضی ہے کہ وہ سزاوں کے خلاف اپیل پہلے سنے یا سزاؤں کی معطلی کی درخواست سنے، عدالت عظمٰی ہائی کورٹ کے اس اختیار میں مداخلت نہیں کرسکتی۔
بعد ازاں عدالت نے غیر ضروری درخواست دینے پر نیب پر 20 ہزار روپے کا جرمانہ بھی کردیا اور جرمانے کی رقم ڈیم فنڈ میں جمع کروانے کی ہدایت کی۔
خیال رہے کہ شریف خاندان کے وکلاء کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت کے ایون فیلڈ ریفرنس سے متعلق فیصلے کو معطل کرنے اور نواز شریف کے خلاف 2 زیر سماعت ریفرنسز کو دوسرے جج کو منتقل کرنے سے متعلق 3 اپیلیں دائر کی گئیں تھیں۔
یاد رہے کہ 6 جولائی کو شریف خاندان کے خلاف نیب کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال جبکہ داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف پر 80 لاکھ پاؤنڈ (ایک ارب 10 کروڑ روپے سے زائد) اور مریم نواز پر 20 لاکھ پاؤنڈ (30 کروڑ روپے سے زائد) جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔
اس کے علاوہ احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے لندن میں قائم ایون پراپرٹی ضبط کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔