میانمار میں مسلمانوں کی نسل کشی، فوجی افسران کے ٹرائل کی تجویز
جینیوا: روہنگیا مسلمانوں کے قتلِ عام کی تحقیقات کرنے والے فیکٹ فائنڈنگ مشن نے میانمار کے فوجی افسران کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے کر ان کا ٹرائل کرنے کی تجویز پیش کردی، جبکہ مسلمانوں کا قتل عام رکوانے میں ناکامی پر اقوامِ متحدہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
اقوامِ متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن نے میانمار کی ریاست رخائن میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر مبنی 432 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں تین ہفتوں پہلے اس حوالے سے جاری ہونے والی رپورٹ کی ابتدائی تجاویز اور نتائج کر مسترد کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فیکٹ فائنڈنگ مشن کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ’ بہت دکھ اور افسوس کے ساتھ ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی حالت ہماری سوچ سے بھی زیادہ بد تر ہے‘۔
اس مشن کے چیئرپرسن مرزوکی داروسمن نے بتایا کہ انہوں نے یہ رپورٹ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سامنے پیش کردی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: جنسی تشدد پر میانمار کی فوج کو اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ میں شامل کردیا گیا
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے اپنی رپورٹ میں جو اخذ کیا ہے وہ نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین میں سب سے بڑے جرائم ہیں‘۔
اقوامِ متحدہ کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے زور دیا کہ اس تنازع میں ملوث میانمار کے کچھ فوجی افسران کا جنگی جرائم، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے الزام میں ٹرائل ہونا چاہیے۔
ادھر اقوامِ متحدہ میں میانمار کے مندوب کیو موٹن نے عالمی ادارے کے حمایت یافتہ فیکٹ فائنڈنگ مشن کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے یک طرفہ رپورٹ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح یہ رپورٹ تیار کی گئی ہے اس سے ظاہر ہے کہ اس میں میانمار کی مختلف قوموں کے بارے میں غلط بیانی کی گئی ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: میانمار بحران: ’نوبل انعام یافتہ قونصلر میں اخلاقی فقدان ہے‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس رپورٹ کے غیر متوازن اور غیر منصفانہ ہونے کے باوجود میانمار حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔
میانمار کے مندوب نے کہا کہ ان کی حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی۔
جب فیکٹ فائنڈنگ مشن کے چیئرپرسن نے رخائن میں خواتین اور لڑکیوں کے ریپ کا تذکرہ کیا تو میانمار کے مندوب نے جواب دیا کہ ’ہمیں خواتین کے ریپ اور ان کے لاپتہ ہونے پر افسوس ہے جبکہ ایسے واقعات پر گہری تشویش بھی ہے‘۔
رپورٹ میں اقوامِ متحدہ کی روہنگیا نسل کشی پر توجہ اور میانمار میں اس تنازع کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی ادارے کے کردار پر بھی شدید تنقید کی گئی۔
مزید پڑھیں: 'میانمار، پناہ گزینوں کو واپس لینے کے لیے تیار نہیں'
فیکٹ فائنڈنگ مشن کا کہنا تھا کہ 2011 سے میانمار میں اقلیتی برادریوں پر ہونے والے کریک ڈاؤن سے اقوامِ متحدہ نے میانمار میں ’انسانی حقوق ایکشن پلان‘ 2013 میں ہی نافذ کردیا تھا، تاہم اگر اس پر مکمل عمل ہوتا تو یہاں زیادہ مسائل سامنے نہیں آتے۔
انٹرنیشنل کمیشن برائے جورسٹس کے سینئر قانونی مشیر کنگسلے ایبٹ کا کہنا ہے کہ میانمار میں اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق ایکشن پلان کی ناکامی کی مکمل اور شفاف تحقیقات ہونی چاہیے۔