نقطہ نظر

تحریک انصاف کا 'منی بجٹ' ماضی کے دعووں کی روشنی میں

ٹیکس امور کے ماہر اشفاق تولا سے پی ٹی آئی حکومت کے 'منی بجٹ' پر خصوصی گفتگو۔

منگل کے روز میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا اور اپنے ساتھی اسائمنٹ ایڈیٹر سے سیاسی گپ شپ ہورہی تھی۔ ایسے میں قومی اسمبلی کے اجلاس سے اسد عمر نے خطاب شروع کیا تو سب ٹی وی آواز بڑھا کر تقریر سننے لگے۔ ہمارے دفتر میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے امیدیں باندھے متعدد دیگر افراد بھی ٹی وی کے گرد جمع ہوگئے۔

پڑھیے: لگژری گاڑیوں، مہنگے موبائل اور سگریٹ پر ڈیوٹیز میں اضافہ

وزیرِ خزانہ کی تقریر پر نوک جھوک اور دلچسپ تجزیات جاری تھے کہ اسمبلی رپورٹر صاحب کھڑے ہوئے اور مجھے اسد عمر کی گزشتہ قومی اسمبلی میں بجٹ پر اپنی تقریر میں کی گئی تنقید کا وڈیو کلپ دکھانے لگے، جس میں اسد عمر کا کہنا تھا کہ:

’کچھ سمجھ نہیں آتا اس بجٹ کو دیکھ کر اور اس حکومت کی ٹیکس پالیسی کو دیکھ کر کہ کیا یہ واقعی 20 کروڑ پاکستانیوں کا پاکستان ہے۔ یا یہ پاکستان صرف اس کا ہے جس کا رائیونڈ میں مکان ہے۔ گیس پر 2 نئے ٹیکس، بجلی پر 3 نئے دنیا میں گیس کی قیمت ایک تہائی رہ گئی پاکستان میں گیس کی قیمت ہر سال بڑھائی جارہی ہے۔ گزشتہ 3 سال سے بجلی پر 3 نئے ٹیکس لگا دیے گئے، پیٹرولیم کی مصنوعات پر پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ٹیکس ڈیزل پر 100 فیصد اور پیٹرول پر 51 فیصد ٹیکس لگایا گیا ہے۔ ٹیکس اس سے نہیں لیا جارہا جو پاکستان میں دولت لوٹ کر ملک سے باہر لے جارہا ہے، اثاثے بنارہا ہے اور ان کو چھپا رہا ہے۔‘

آپسی نوک جھونک کو ایک طرف رکھتے ہوئے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور پاکستانی ٹیکس امور کے ماہر اشفاق تولا سے رابطہ کیا۔ اشفاق تولا پیشے کے اعتبار سے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں اور پاکستانی ٹیکس امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

متعدد حکومتی کمیشنز اور کمیٹیوں میں بلامعاوضہ خدمات سرانجام دے چکے ہیں اور گزشتہ حکومت کی قائم کردہ ٹیکس اصلاحاتی کمیٹی انہی کی تجویز پر قائم کی گئی جس کی سفارشات مرتب کرنے اور انہیں شائع کرنے کا کام بھی انہوں نے ہی سرانجام دیا۔ ماضی میں اشفاق تولا کو چیئرمین ایف بی آر بننے کی پیشکش کی گئی تھی جو انہوں نے مسترد کردی تھی۔

پڑھیے: ‘آمدنی اٹھنی خرچہ روپیہ’؛ پاکستانی معیشت کا اصل مسئلہ

قارئین کی خدمت میں اشفاق تولا سے ہونے والی گفتگو پیش ہے۔


راجہ کامران: تحریک انصاف کی حکومت نے جو دعوے ماضی میں کیے تھے وہ اس فنانس بل یا بجٹ میں کس حد تک پورے ہوتے نظر آرہے ہیں۔ کیا ٹیکس کی شرح کم کرنے کے باوجود زیادہ ٹیکس جمع کرنے کے دعوے کا عکاس یہ بجٹ ہے یا نہیں؟

اشفاق تولا: ایسی کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آئی ہے، زیادہ آمدنی والے تقریباً 70ہزار افراد پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے۔ جس سے قومی خزانے کو 18 سے 20 ارب روپے اضافی ملیں گے۔ اس کے علاوہ کسٹم ڈیوٹی میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ بہت سی اشیاء پر ڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔ سگریٹ پر ڈیوٹی میں رد و بدل کیا گیا ہے۔

مگر اٹھایا گیا ایک قدم ٹھیک نہیں لگ رہا۔ پہلے قانون یہ تھا کہ کوئی بھی شہری جو ٹیکس فائلر نہ ہو، وہ 50 لاکھ سے اوپر جائیداد اور کسی بھی مالیت کی نئی گاڑی نہیں خرید سکتا تھا۔ اس شرط کو یکسر طور پر ختم کردیا گیا ہے۔ اس عمل سے ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافے اور معیشت کو دستاویزی بنانے کے اقدامات کی نفی ہوتی ہے اور ایک مرتبہ پھر بلیک مارکیٹنگ اور فائلوں کا دھندا شروع ہوجائے گا اور بلیک منی پراپرٹی میں پارک ہونے لگے گی۔ چنانچہ جو لوگ ٹیکس نیٹ میں آرہے تھے وہ نکل جائیں گے۔

میں نے ٹیکس اصلاحاتی کمیٹی کے رکن کے طور پر تجویز دی تھی کہ ایک حد سے زیادہ بڑے اثاثوں پر ٹیکس لگایا جائے۔ یہ ٹیکس زرعی زمین پر بھی عائد ہو اور جو لوگ انکم ٹیکس ادا کر دیں ان سے یہ ٹیکس وصول نہ کیا جائے۔ اس عمل کی وجہ سے لوگ اپنے اثاثوں کی مالیت مارکیٹ کے مطابق ظاہر کریں گے۔ اس سے اشرافیہ پر ٹیکس لگے گا اور ٹیکس نیٹ میں بھی اضافہ ہوگا۔

عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ٹیکس کو آتے ہی دگنا کر دیں گے اور پہلے ہی سال 8 ہزار ارب روپے ٹیکس جمع کرکے دکھائیں گے۔ اگر 5 سال میں 20 فیصد سالانہ کے حساب سے بھی ٹیکس وصولی میں اضافہ کریں تو پھر بھی 10 ہزار ارب روپے ٹیکس جمع کرپائیں گے اور بجٹ خسارہ 9 ہزار ارب روپے ہوگا۔ یہ تو کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔

راجہ کامران: کیا یہ بجٹ معاشی ترقی میں اضافہ کرسکتا ہے؟

اشفاق تولا: حکومت نے ٹیکس بڑھانے کے علاوہ بنیادی شرح سود میں بھی 2 فیصد اضافہ کردیا ہے۔ پاکستانی معیشت کو شرحِ سود ایک فیصد بڑھنے سے 270 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ گیس کی قیمت بھی بڑھا دی گئی ہے جس سے کاروباری لاگت میں اضافہ ہوگا۔ یہ اقدامات ترقی مخالف ہیں۔

پاکستان کو سالانہ 12 لاکھ ملازمت کے مواقع پیدا کرنے کے لیے معاشی ترقی کی شرح کو 6 فیصد تک لے جانا ہوگا، جبکہ عمران خان نے سالانہ 20 لاکھ نوکریاں پیدا کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ بجٹ کے اقدامات اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔

پڑھیے: سادگی مہم: وزیر اعظم ہاؤس کی 102 میں سے 61 گاڑیوں کی نیلامی مکمل

راجہ کامران: بجٹ میں خسارہ پورا کرنے کے حوالے سے کیا کوئی خاص اقدامات دیکھے جارہے ہیں؟

اشفاق تولا: کہا جاتا ہے کہ قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا ہے مگر یہ دیکھنا ہوگا کہ ٹیکس وصولی میں اضافے کے باوجود یہ قرض بڑھ کیوں رہا ہے۔ 5 سال میں ٹیکسوں میں اضافہ 9 ہزار ارب روپے ہے۔ جس میں 2900 ارب روپے این ایف سی ایوارڈ کی مد میں صوبوں کو منتقل کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبے بھی شروع کیے گئے ہیں۔ کسی غیر ملکی اور مغربی فلسفی کی تھیوری کے بجائے مقامی سطح پر تجربہ کار افراد کی خدمات زیادہ بہتر ہوں گی۔ یہ پاکستان ہے اور پاکستان کے اپنے منفرد مسائل ہیں۔

راجہ کامران: کیا ایف بی آر کے حکام وزیرِ خزانہ کو درست سمت میں لے جارہے ہیں اور حکومت کو درست مشورے دیے جارہے ہیں؟

اشفاق تولا: ایف بی آر کے افسران میں ایک گروہ ہے جو کہ وزیرِ خزانہ کو گمراہ کررہا ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ ٹیکس اصلاحاتی کمیٹی کی تجاویز پر عملدرآمد نہ ہو۔ یہ افسران وزیرِ خزانہ کو غلط سمت میں لے جارہے ہیں۔ وزیرِ خزانہ کو چاہیے کہ تحقیقات کریں کہ کس افسر کے بچے اور اہل خانہ سگریٹ کمپنیوں میں کام کررہے ہیں۔ جنہیں تحفظ دے کر سالانہ 70 ارب روپے کا ٹیکس بچایا جارہا ہے۔

اب آپ شاید یہ سوچ رہے ہوں کہ پی ٹی آئی کی مرکز میں پہلی مرتبہ حکومت بنی ہے اور انہیں تجربہ نہیں ہے کہ بجٹ کیسے بنایا جاتا ہے۔ مگر یہ بات درست نہیں ہے۔ جمہوری نظام میں حکومت کی کابینہ کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی بھی اپنی کابینہ ہوتی ہے، جس کو شیڈو کیبنٹ کہتے ہیں۔ اس کابینہ میں ہر وزارت کا کام ایک اپوزیشن رہنما کے سپرد ہوتا ہے اور وہی متعلقہ قائمہ کمیٹی کا رکن یا سربراہ بھی ہوتا ہے۔ اگر اپوزیشن اقتدار میں آئے تو متعلقہ وزارت کا قلمدان حکومت کے قیام کے وقت اسی کو دیا جاتا ہے۔

اپوزیشن میں شیڈو وزرا کو پارلیمنٹ کی متعلقہ وزارت کی قائمہ کمیٹی کا رکن بھی بنایا جاتا ہے۔ ان کمیٹیوں کے اراکین کو وہی تمام بریفنگ اور معلومات فراہم کی جاتی ہے جو کہ وزیر کو دی جاتی ہے۔ فرق صرف فیصلہ سازی کا ہوتا ہے۔ ان کمیٹیوں کی کارروائی پارلیمنٹ کی جان ہوتی ہے۔

لہٰذا پی ٹی آئی کی قیادت اور خصوصاً اسد عمر کو اس بات میں بھی چھوٹ نہیں دی جاسکتی کہ انہیں معلومات دستیاب نہیں تھیں۔ اسد عمر نے معیشت کی جو تصویر پیش کی ہے وہ درست ہے مگر ماضی میں کی گئی تنقید ان کا پیچھا کررہی ہے۔

ایسے میں مجھے معروف امریکی لکھاری اور مقرر ڈیل کارنیگی کی کتاب How to win Friends and Influence People (دوستوں کو جیتنے اور لوگوں پر اثر انداز ہونے کا فن) کی یہ سطر یاد آئی کہ ’تنقید قاصد کبوتروں کی طرح ہوتی ہے، جو ہمیشہ گھر ہی لوٹ آتی ہے۔‘

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔