پاکستان

امریکی امداد پاکستان کے لیے ‘زندگی یا موت’ کا مسئلہ نہیں، نیول چیف

بھارت کے بحر میں جوہری ہتھیار نصب کرنے کے پروگرام پر پاکستان کو بھی برابری کی ضرورت ہے، ایڈمرل عباسی
|

پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل ظفر محمود عباسی کا کہنا ہے کہ بھارت کے سمندر میں جوہری ہتھیار نصب کرنے کے منصوبے کی وجہ سے پاکستان کو بھی خطے میں اسٹریٹجک متوازن برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ پاک بحریہ کے سربراہ 18 سے 23 ستمبر تک امریکا میں منعقدہ 23 ویں انٹرنیشنل سی پاور سمپوزیم میں شرکت کے لیے امریکا کے سرکاری دورے پر ہیں۔

امریکا میں پاکستانی سفارت خانے کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاک بحریہ کے سربراہ نے پاکستان کی جانب سے افغانستان میں اسٹریٹجک ڈیپتھ حاصل کرنے کی کوششوں کی افواہوں کو مسترد کیا۔

مزید پڑھیں: جب پاک بحریہ نے بھارتی نیوی کا جہاز تباہ کیا...

ان کا کہنا تھا کہ امریکا کا پاکستان کو مالی معاونت روکنے کا فیصلہ اچھا نہیں تھا تاہم ہمارے لیے یہ معاملہ زندگی یا موت کا مسئلہ نہیں۔

سمندر میں جوہری رکاوٹ:

امریکی میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ایڈمرل عباسی نے پاکستان کی جانب سے بھارت کے سمندر میں جوہری پروگرام کے بدلے میں اقدامات کا دفاع کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سمندر میں نصب جوہری ہتھیار سے دوبارہ حملے کی صلاحیت حاصل ہوتی ہے اور اس سے خطے میں برابری نہیں رہتی جس کی وجہ سے ہم نے اس صلاحیت کو برابر کی سطح پر لانے کے لیے اقدامات کیے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بھارت کے اس پروگرام پر شدید تحفظات ہیں اور ہمارے اقدامات بھارت کے پروگرام کو روکنے کے لیے اٹھائے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: دنیا کو پر امن بنانے کیلئے ایٹمی ہتھیاروں کو تلف کرنا ناگزیر

واضح رہے کہ رواں سال اپریل کے مہینے میں پاکستان نے مقامی طور پر تیار کئے گئے ’بابر‘ کروز میزائل کی رینج میں اضافہ کر کے اس کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق جدید ایروڈائنامکس اور ایوونکس کا شاہکار یہ میزائل ’بابر ویپَن سسٹم ون بی‘ 700 کلو میٹر کے فاصلے تک زمین اور سمندر میں ’جی پی ایس‘ نیوی گیشن کی غیر موجودگی میں بھی اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ایڈمرل عباسی کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بابر 3 میزائل کا تجربہ بھارتی چیلنجز کو شکست دینے کے لیے کیا تھا تاہم انہوں نے صحافی کی جانب سے سوال میں اس میزائل کو بنانے میں چینی معاونت کے تاثر کو مسترد کردیا۔

ایڈمرل عباسی کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارتی خطرات سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے جوہری ہتھیار کی حفاظت کرنا جانتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے 2016 میں چین سے 8 سب میرینز کا معاہدہ کیا تھا جو 2025 تک ہمیں مل جائیں گی تاہم واضح رہے کہ ان سب میرینز میں جوہری ہتھیار نصب کیے جانے کی صلاحیت نہیں ہے۔

پاکستان، افغانستان میں اسٹریٹجک ڈیپتھ حاصل نہیں کرنا چاہتا:

ایڈمرل عباسی نے پاکستان کی جانب سے افغانستان میں اسٹریٹجک ڈیپتھ حاصل کرنے کی افواہوں کو مسترد کیا اور کہا کہ افغانستان ایک خودمختار ریاست ہے اور ہم اس کی عزت کرتے ہیں۔

پاک بحریہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاسی تبدیلیوں سے افغان پالیسی پر کوئی اثر نہیں آیا اور ہمارا ملک افغانستان میں امن اور استحکام کی حمایت کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: افغان حکومت سے مذاکرات پر مبنی امریکی بیان میں کوئی صداقت نہیں، طالبان

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان میں غیر حکومتی ریاستیں نہیں چاہتا کیونکہ اس کے اثرات پاکستان پر بھی آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گرد افغانستان میں پناہ حاصل کرتے ہیں اور اس کی زمین کو پاکستان میں حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہم سرحد پر باڑ لگا رہے ہیں۔

امریکا طالبان مذاکرات:

قطر میں امریکا اور طالبان کے مذاکرات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم اس پیش رفت کا خیر مقدم کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے 2016 میں مذاکرات کا آغاز امن کی امید تھی جسے ملا عمر کی ہلاکت کی خبر لیک کرکے سبوتاژ کیا گیا تھا۔

ایڈمرل عباسی نے پاکستان کا افغان طالبان کی مالی معاونت کرنے کے تاثر کو مسترد کیا اور کہا کہ طالبان کی آمدنی منشیات کے فروغ سے ہوتی ہے اور اس کی تقریباً 30 سے 40 فیصد اسمگلنگ سمندری راستوں سے ہوتی ہے جسے ہم روکنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

پاکستان شمالی کوریا نہیں ہے:

پاک بحریہ کے سربراہ نے پاکستان کو شمالی کوریا کی طرح اکیلے پن کا سامنا ہونے کی تجویز سے ناموافق ہوتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا شمالی کوریا سے موازنہ کرنا نامناسب ہے۔

ایڈمرل عباسی کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا بین الاقوامی سسٹم سے دور ہوگیا ہے جبکہ پاکستان اس میں موجود ہے کیونکہ اسلام آباد کو معلوم ہے کہ کوئی بھی ملک اکیلے نہیں چل سکتا۔

امریکا اور پاکستان تعلقات:

ایڈمرل عباسی کا کہنا تھا کہ پاکستان، امریکا سے تعلقات میں بہتری، معاشی و سیکیورٹی رہنمائی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے باہمی عزت سے چاہتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سکیورٹی معاونت ہماری ترجیح نہیں ہم یہ تعلقات دونوں صورتوں میں بہتر دیکھنا چاہتے ہیں، پاکستان میں بہت وسائل ہیں اور ہم امریکا کی معاونت کے بغیر بھی کام کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ‘ایٹمی قوت کی عسکری امداد روکنے کا فیصلہ آسان نہیں تھا’

ایڈمرل عباسی نے امریکا کی جانب سے حال ہی میں پاکستان کے فوجی افسران کا امریکی دفاعی اداروں میں جانے کے پروگرام بند کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’فوجی افسران کی تربیت رکی نہیں ہے، ہم اب بھی اپنے افسران کو اپنے وسائل پر امریکا میں تربیت کے لیے بھیج رہے ہیں‘۔

گوادر میں کوئی چینی بیس موجود نہیں:

ایڈمرل عباسی نے گوادر میں چینی بیس بنائے جانے کی خبروں کو بھی مسترد کیا۔

انہوں نے کہا کہ گوادر خالصتاً ایک تجارتی بندرگاہ ہے اور ابھی تک کوئی بھی غیر ملکی جنگی جہاز گوادر بندگاہ پر لنگرانداز نہیں ہوا۔

امریکا-بھارت معاہدہ:

پاک بحریہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ بھارت اور امریکا کے درمیان حال ہی میں میری ٹائم کا معاہدہ طے پایا ہے تاہم یہ معاہدے کوئی غیر مفادی کھیل نہیں ہیں۔

ایڈمرل ظفر محمود عباسی نے بتایا کہ پاک بحریہ نے کثیر القوی بحری مشق کے انعقاد کی منصوبہ بندی کی ہے جس میں امریکا سمیت تقریباً 50 ممالک کی شرکت متوقع ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا بھارت مشترکہ اعلامیہ سفارتی آداب کے منافی ہے،دفتر خارجہ

ان کا کہنا تھا کہ اس مشق کے ذریعے تمام شریک ممالک کی افواج ’امن کے لیے متحد‘ عزم کے ساتھ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔

نئی حکومت کی افغان پالیسی:

پاکستان کی نئی حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی کے سوال کے جواب میں ایڈمرل عباسی نے کہا کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف اپنے مفاد کے برعکس کارروائیاں کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاک آرمی نے قبائلی علاقوں کو منظم دہشت گرد تنظیموں سے خالی کرانے کے لیے کئی آپریشن کیے ہیں اور اب قبائلی علاقے قومی دھارے میں بھی آچکے ہیں۔