خان صاحب 90 کیا 900 دن لے لیں مگر ایسا تو نہ کریں
جی ہاں، پورے ایک ماہ بعد وزیرِ اعظم عمران خان کی کراچی یاترا ہوئی۔ نہ جانے کیسے اور کیوں یہ روایت پڑ گئی ہے کہ ادھر کوئی شخص صدر، وزیرِ اعظم، گورنر، وزیرِ اعلیٰ یا میئر بننے بھی نہیں پاتا کہ کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو جاتا ہے کہ اب جناب مزارِ قائد پر حاضری دینے کے لیے کب تشریف لائیں گے۔
سو منتخب یا نامزد ہوتے ہی ہمارے بڑے چھوٹے حکمراں پورے پروٹوکول کے ساتھ ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ لیے مزارِ قائد پر بدستِ دعا ہوتے ہیں۔ اور تو اور، نئے آئی جی سندھ کلیم امام بھی اتوار کے دن اپنی پوری بٹالین کے ساتھ مزارِ قائد پر فاتحہ فرما رہے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اُس کے اگلے ہی دن چیف جسٹس کے ہاتھوں اپنی کارکردگی پر جھاڑیں کھا رہے تھے۔
آئی جی سندھ کا ذکر تو برسبیلِ تذکرہ کررہا تھا۔ بات اپنے محترم عمران خان کے وزیرِ اعظم بننے کے بعد پہلی بار کراچی آمد پر ہورہی تھی کہ 5 سال پہلے وزیرِ اعظم نواز شریف، اُس سے 5 سال پہلے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی، اُس سے بھی پہلے وزیر اعظم شوکت عزیز، اور اس سے پہلے دیگر وزرائے اعظم تک میری یادداشت کے مطابق سارا سیٹ اور اسکرپٹ وہی ہوتا ہے۔
امید بھی یہی تھی اور نیک دلی سے خواہش بھی کہ ہمارے تبدیلی لانے کے دعویدار وزیرِ اعظم اور اُن کے ساتھ آزمودہ مشیرانِ کرام ’تاثر‘ دینے کی حد تک ہی اس میں تھوڑی بہت تبدیلی ڈال دیں گے۔
مگر برسوں بلکہ دہائیوں سے درجنوں سربراہانِ مملکت کو بھگتانے والی سویلین، ملٹری اصلی تے وڈی سرکار نے بھی لگتا ہے 18 اگست کو حلف اٹھاتے ہی Blue Book پکڑا دی ہوگی جسے نعوذباللہ حکمرانوں کے لیے ’آسمانی صحیفے‘ کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ سو ہمارے خان صاحب کراچی ایئر پورٹ سے ہیلی کاپٹر پر اڑتے تپتی دوپہر میں 1 بجے مزارِ قائد پہنچے جہاں انہوں نے فاتحہ خوانی میں پون گھنٹہ گزارا۔
پڑھیے: عمران خان بھی وفاداروں کو نوازیں گے، یہ امید ہرگز نہیں تھی
جب وہ مہمانوں کی کتاب میں تاثرات درج کر رہے تھے، تو بس ایک بات بار بار ذہن میں آتی رہی کہ آخر یہ سیاستدان ایسی جگہوں پر اس کتاب میں آخر لکھتے کیا ہوں گے، کبھی تو یہ بھی عوام کے سامنے لانا چاہیے کہ مزارِ قائد پر فاتحہ کے لیے آنے والے یہ سیاستدان آخر کیا تاثرات رکھتے ہیں۔
سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ کیا جتنی مستعدی حاضریاں دینے میں لگائی جاتی ہے، اتنی کیا کبھی قائدِ اعظم کے اقوال پر عملدرآمد کرنے میں دکھائی گئی ہے؟
خیر، فاتحہ خوانی میں پون گھنٹا گزارنے کے بعد اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس، جسے سابق صدر ممنون حسین کی طرح ہمارے محترم صدر ڈاکٹر عارف علوی نے بھی صدارتی کیمپ کی حیثیت میں برقرار رکھا ہوا ہے، وہاں 2 بجے سے 3 بجے تک گورنر عمران اسمٰعیل، وزیرِ اعلیٰ مراد علی شاہ اور وزیر اعظم عمران خان کی ون ٹو ون ملاقات ہوئی۔
اب عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور وزیرِ اعلیٰ مراد علی شاہ کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) میں اکثر ہونے والی نوک جھونک کے پیشِ نظر اس حوالے سے بھی نہایت چہ مگوئیاں رہیں کہ درونِ خانہ اس ملاقات میں کیا کیا گفتگو ہوئی ہوگی۔ مگر کیا کریں کہ اس طرح کی ون ٹو ون ملاقاتوں میں جب کوئی فریقین کے علاوہ کوئی موجود ہی نہ ہو، تو فریقین یا ان کے ترجمانوں کا سہارا لیے بغیر کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
3 بجے سے 4 بجے کے دوران امن و امان کے حوالے سے بریفنگ میں صدر، گورنر، وزیرِ اعلیٰ کے ساتھ ڈی جی رینجرز، کور کمانڈر کراچی، چیف سیکریٹری، ہوم سیکریٹری، کمشنر کراچی اور آئی جی سندھ کو شامل کر لیا گیا۔ حسبِ روایت ہر صدر اور وزیر اعظم کی طرح ایک گھنٹہ یعنی 4 سے 5 متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے لے لیا۔