’کیسے سمجھائیں کہ ام پاکستانی ہے، بس شہریت نہیں ہے‘
اس روز صبح 9 بجے دروازہ بجنے کی کھٹکھٹاہٹ نہیں ہوئی تھی۔ ہمارا باورچی خیر علی مقررہ وقت سے پہلے ہی آگیا تھا۔ میں کمرے سے باہر آیا تو وہ کچن میں کرسی پر سر جھکائے بیٹھا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ یااللہ خیر، خیر علی تو بہت ہنس مکھ ہے۔ کابل کے مضافات میں آباد ہزارہ قبائل سے تعلق رکھنے والا ادھیڑ عمر خیر علی جب بھی صبح مجھے دیکھتا ہے تو فی البدیہہ کوئی فارسی شعر کہہ دیتا ہے۔ مجھے اس کے اشعار کی زیادہ سمجھ تو نہیں آتی مگر اس کے مصرعوں میں اپنا نام سن کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ آمد مجھے دیکھتے ہی ہوئی ہے۔
میں فکر مندی سے پوچھتا ہوں۔
’خیر علی بھائی؟ سب خیریت تو ہے ناں؟‘
’ہاں سب خیریت۔ تشکر۔‘
’قابلِ تشکر نیست‘۔ میں ہنس کر کہتا ہوں۔ میں نے یہ جملہ اس سے ہی سیکھا ہے ۔
میں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے پوچھ ہی لیا کہ پھر یہ چہرہ اتنا مرجھایا ہوا کیوں ہے؟
مزید پڑھیے: شناخت کے متلاشی کراچی کے بنگالی، برمی اور ایرانی
کیا بتاؤں شوذیب بھائی۔ تم کو تو معلوم ای ہے کہ امارا بچی کے گھر اولاد ہوا ہے۔ اللہ کا شکر کہ سب خیر ہے۔ ام رات کو ایک بجے اسپتال سے گھر آیا۔ صبح 4 بجے بہت زور سے دروازے پر دستک ہوا۔ ام نے دروازہ کھولا تو سامنے کچھ پولیس والے کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک بولا کہ تم رات کو ہتھیار لایا اے۔ ام بوہت بولا کہ ام لوگوں کے گھر میں بچہ ہوا ہے۔ ام بچہ لایا ہے۔ ہتھیار نہیں لایا۔ وہ بولا کہ ہم نے تمہارا گھر کے سامنے کیمرہ میں دیکھا کہ تم رات کوئی چیز چھپا کر لایا۔ ام نے بتایا کہ امارے گھر بچہ ہوا ہے۔ ام وہ اسپتال سے لایا ہے۔ اس کے ساتھ زنانہ پولیس والی بھی تھا۔ اس نے زنانہ سے پوچھا کہ اس کے گھر میں بچہ ہوا ہے۔ وہ بولا ہاں۔ تو بس اس کے ہاں بولنے پر مسئلہ کچھ حل ہوا اور پھر وہ گیا۔
ہمارا بچہ لوگ بہت ڈرا ہوا ہے۔ ہمارا زندگی سخت خراب ہے۔ پولیس ہم کو بولتا ہے کہ رات 9 بجے سے پہلے گھر میں داخل ہوجاؤ۔ پھر اس کے بعد باہر سے آنا جانا مت کرو۔ جب بھی پولیس روکتا ہے تو ایک ہی بات کہتا ہے کہ تم افغان اے، اپنا کارڈ دکھاؤ۔ ام کارڈ دکھاوے بھی تو پیسہ مانگتا ہے۔ ایک بار تو امارا گلی میں ہی ام کو موٹر سائیکل والا پولیس روک لیا اور 300 روپے لے کر جانے دیا۔ ورنہ بولتا تھا کہ تھانے چلو ۔