تھر میں سبز کھیتوں کی ناکام تلاش
تھر میں سبز کھیتوں کی ناکام تلاش
ہم جس گھر میں رہتے ہیں، وہ کسی گلی محلے میں ہوسکتا ہے، گاؤں میں کانٹوں کی باڑ میں بسے ہوئے 10 سے 12 کچے مکانات میں سے ایک ہوسکتا ہے۔ کھیتوں میں بنی ہوئی کٹیا بھی ہوسکتی ہے، جھیلوں کے کنارے کسی خانہ بدوش کی جھونپڑی بھی ہوسکتی ہے۔ گھر بس گھر ہوتا ہے، چاہے اُس کی شکل اور شبیہہ کیسی بھی ہو۔ آنگن چھوٹا سا بھی ہوسکتا ہے اور کسی سخی انسان کے دل جتنا وسیع بھی۔
مشرق سے اُگتی صبح کی لالی، تپتی دوپہر، ڈھلتی شام، بارش اور جاڑے کی صاف شفاف ہوائیں ان آنگنوں کی مہمان ہوتی ہیں۔ ویسے بھی کہاوت ہے کہ مہمان اور بارش کتنا رکیں گے، ابھی ہیں ابھی نہیں ہیں۔ تو یہ ساری کیفیتیں بھی ایسی ہی ہوتی ہیں۔ ان کیفیتوں کے درمیان زندگی کی چاندنیاں اور شب و روز گزرتے ہیں۔ ان آنگنوں پر نئے وجود جنم لیتے ہیں اور پہلی بار نیلے امبر کو دیکھتے ہیں۔ پھر بڑے ہوتے ہیں اور ان ہی آنگنوں میں آسمان کو آخری بار دیکھ کر ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیتے ہیں۔ اس لیے کہتے ہیں کہ اپنے گھر کے آنگن سے اور کوئی چیز مُقدس نہیں ہے۔
برطانوی رکنِ پارلیمنٹ، سفارتکار اور جنوب ایشیائی ممالک پر کئی کتابوں کا مصنف ای بی ایسٹوک 1839ء میں گجرات، پالن پور، کاٹھیاواڑ اور کچھ سے ہوتا ہوا سمندر کے وسیلے سندھ پہنچا۔ وہ تحریر کرتا ہے کہ ’’میں جیسے جیسے کاٹھیاواڑ کے نزدیک ہوتا گیا تو ملک زیادہ غیرآباد دیکھنے کو ملا۔ ہر گاؤں کے گرد ہڈیوں کے ڈھیر دیکھنے کو ملے، سچ پوچھیں تو خشک سالی اتنی خطرناک تھی کہ پورے ملک کا لائیواسٹاک مر کھپ چکا تھا۔ ملک میں شدید قحط پڑا تھا اور مجبوریاں اتنی تھیں کہ والدین اپنے بچوں کو بیچنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بچے لاتعداد مرچکے تھے اور مسلسل مر رہے تھے۔ اس طرح کی مصیبتیں کاٹھیاواڑ اور کچھ کی طرف آتی رہتی ہیں۔ اگر ہماری حکومت چاہے تو ان کو روکنے کے لیے تدابیر کی جاسکتی ہیں۔ ہم اس علاقے سے ہر برس 6 لاکھ 80 ہزار کا ٹیکس لیتے ہیں، لیکن اس رقم سے یہاں عوام کے لیے کچھ خرچ نہیں کرتے۔‘‘