صادقین: درویش، فقیر، قلندر یا ایک بے نیاز روح؟
فنکار اگر اپنے حلیے سے فنکار نہ لگے تو اس کی ساری فنکاری آدھی رہ جاتی ہے۔ وہ سوپر ٹیلینٹڈ ہو، وہ اپنے فن میں مہان ہو، جب تک اس میں کچھ ادا، کچھ خاص ٹیڑھ یا ایسا کہہ لیں کہ تھوڑا اسٹائل نہیں آتا، وہ قبولِ عام کی سرحد سے ایک یا 2 فٹ پیچھے رہتا ہے۔
لمبی چوڑی مثالیں گنوانے کے بجائے سیدھے صادقین پر لینڈ کرتے ہیں۔ وہ لیجنڈری فنکار تھے۔ مست ملنگ حلیہ تھا اور دنیا کی طرف رویہ بھی عین ایسا ہی تھا۔ کوئی شک نہیں کہ ایسے آرٹسٹ صدیوں بعد بھی سامنے نہیں آتے۔ جتنا کام انہوں نے کیا اور جس معیار کا وہ سب کام تھا، اتنا کچھ تو 10 زندگیوں میں بھی ایک مصور نہیں کرسکتا۔
کہیں لکھنے والوں نے لکھا کہ وہ 24 میں سے 23 گھنٹے کام کرتے تھے، کہیں یہ بتایا گیا کہ باقی والا ایک گھنٹہ بھی سونے کے بجائے بس کمر سیدھی کرنے کو لیٹ جاتے تھے، کہیں سننے میں آیا کہ تصویریں بناتے بناتے ان کی انگلیاں ٹیڑھی ہوگئی تھیں اور ایک مرتبہ تو کسی ٹی وی شو میں خود دیکھا کہ وہ اپنی ٹیڑھی انگلیاں دکھا رہے تھے اور بتارہے تھے کہ دیکھو کیسے اللہ لکھا نظر آتا ہے۔ لیکن ایک بات واقعی طے ہے کہ اگر کوئی بندہ جناتی طریق پر کام کرتا تھا تو وہ صادقین ہی تھا۔