لکھاری رائل جیوگرافیکل سوسائٹی کے فیلو ہیں۔
اپریل اور اکتوبر 2016ء کے درمیان میں خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسمٰعیل خان سے گزرنے والے چشمہ رائٹ بینک کینال پر ایک تحقیق کر رہا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب اس صوبے میں حکمراں جماعت کے 'بلین ٹری سونامی' منصوبے کا ہر جانب چرچا تھا۔
مئی کے مہینے میں، مَیں نے کینال کے ساتھ ساتھ کچھ لوگوں کو سیکڑوں کونوکارپس اور سفیدے کے درخت لگاتے ہوئے دیکھا۔ میں نے لکی مروت میں کسی جگہ دریائے گمبیلہ کے پاٹ میں بھی سفیدے کے ہزاروں درخت لگے ہوئے دیکھے تھے۔
یہ دونوں ہی درخت غیر معمولی طور پر پیاسے درخت ہیں۔ آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والا سفیدے کا درخت ایک دن میں 100 لیٹر تک پانی جذب کرسکتا ہے۔ یہ بات نہایت قابل ڈاکٹر اشرف بودلہ نے 90ء-1989ء میں فیصل آباد کے نیوکلیئر انسٹیٹیوٹ آف ایگرو بائیولوجی میں کام کرتے ہوئے معلوم کی تھی۔ ہماری زمین پر لگا ہوا سفیدے کا ہر درخت ایک نان اسٹاپ ٹیوب ویل ہے جو ہمیں زیرِ زمین پانی سے محروم کر رہا ہے۔
مزید پڑھیے: شہری شجرکاری: کیا حکومت اتنی عجلت میں یہ کام کرپائے گی؟
دوسری جانب کونوکارپس دنیا کے کئی حصوں میں اگتا ہے اور اسے 2005ء میں اس وقت کے میئر کراچی مصطفیٰ کمال نے متحدہ عرب امارات سے درآمد کیا تھا۔ الرجی پھیلانے اور فراہمی و نکاسی آب کے پائپ تباہ کرنے والا یہ درخت اب ملک بھر میں لاشمار انداز میں پھل پھول رہا ہے۔ اس سے پہنچنے والے نقصان کو دریافت کرنے پر متحدہ عرب امارات نے اس پودے کا اپنی سرزمین سے خاتمہ کردیا ہے۔
میرا ماننا ہے کہ 'بلین ٹری سونامی' کے منصوبہ سازوں اور عملدرآمد کرنے والوں کو اس حوالے سے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ انہیں کون سے پودے لگانے چاہیئں۔ انہیں محکمہ جنگلات کے کرپٹ افسران نے گمراہ کیا جنہیں معلوم تھا کہ یہ دونوں درخت اس لیے باقی بچ جائیں گے کیوں کہ کوئی بھی جانور انہیں چرتا نہیں ہے۔
اور 'نتائج' دکھانے کی دھن میں مگن افسرانِ جنگلات اور سیاستدانوں کے لیے یہی سب سے بہترین راستہ تھا۔ میں نے درختوں کے اس مجرمانہ انتخاب پر آواز اٹھانے کی کوشش کی مگر منصوبے کے سخت حامیوں نے میری آواز یہ کہہ کر دبا دی کہ ’ہم تم سے بہتر ہیں کیوں کہ ہم کچھ تو کر رہے ہیں۔‘
ان میں سے زیادہ تر کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ اس 'کچھ کرنے' سے ماحول اور عوام کی صحت تباہ ہوگی۔ انہیں اس سے فرق نہیں پڑتا تھا کہ 1960ء کی دہائی کے اوائل میں اسلام آباد کو ہرا بھرا کرنے کے لیے چین سے درآمد کیے گئے پیپر ملبری کے درختوں کے بعد کونوکارپس ہی ناک کے امراض کا سب سے بڑا سبب بنے گا۔
اور اب ہمارے سامنے ایک اور سونامی موجود ہے۔ اب کی بار یہ 5 سال میں '10 بلین ٹری سونامی' ہے۔ آئیں ان 10 ارب درختوں کا کچھ حساب کتاب کرتے ہیں۔ اگر ایک سال کی بات کی جائے تو یہ 2 ارب میں تقسیم ہوتے ہیں اور اگر ایک دن کی بات کی جائے تو ہدف کو پورا کرنے کے لیے 55 لاکھ درخت روزانہ لگانے ہوں گے۔ اس پاگل پن میں صرف ایک اچھی بات یہ ہے کہ حکومت نے ان تمام مقامی درختوں کی فہرست جاری کی ہے جو کہ لگائے جائیں گے۔ اس میں سفیدہ یا کونوکارپس شامل نہیں۔ یہ قابلِ تعریف ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ روزانہ 55 لاکھ پودے یا بیج آئیں گے کہاں سے؟ اور وہ بھی اگلے 5 سال تک مسلسل؟
اس بڑھائے چڑھائے گئے عدد کے قریب بھی پہنچنے کے لیے ہوسکتا ہے کہ ماحولیات سے واقفیت نہ رکھنے والے نوجوانوں کو محکمہ جنگلات کے کرپٹ افسران اور سیاستدان گمراہ کردیں، اور یوں ایک بار پھر درختوں کی ناگوار اقسام لگا دی جائیں۔ مگر حساب کہتا ہے کہ اس کے باوجود یہ ہدف پورا نہیں ہوسکے گا۔ پاکستان میں ایسی بے وقوفیاں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں۔
1980ء کی دہائی کے اوائل میں سوات، باجوڑ اور بونیر کے چٹیل پہاڑوں کو سفیدے سے ڈھک دیا گیا تھا۔ فاصلے سے یہ درخت پائن کے درختوں جیسے لگتے تھے مگر یہ درحقیقت زہرِ قاتل تھے۔ ان کی وجہ سے تازہ پانی کے ہزاروں چشمے سوکھ گئے۔ اگرچہ 2000ء کے اوائل میں سفیدہ ختم کرنے کی مہم تو چلیں مگر یہ وبا اب بھی موجود ہے۔
مزید پڑھیے: درخت لگائیے لیکن یہ بھی سوچیے کہ یہ بحران پیدا کیسے ہوا؟
لاہور میں محکمہ جنگلات کی زیرِ انتظام مقامی پودے تیار کرنے والی کم از کم 2 نرسریوں کو میں جانتا ہوں۔ فی الوقت ان کی کُل پیداوار ایک وقت میں 3 ہزار سے زائد نہیں ہوگی اور نئی کھیپ کی تیاری کے لیے انہیں مزید قلمیں تیار کرنی ہوں گی جنہیں پھوٹنے میں 6 ہفتے لگتے ہیں، وہ بھی صرف مارچ سے اکتوبر کے درمیان۔ یہاں تک کہ اگر آسمان سے اربوں بیج برسنے بھی لگے، تب بھی نئے پودے جلد تیار نہیں ہوں گے۔
مگر گرین ٹاؤن میں موجود نرسری کے انچارج نے مجھے بتایا کہ محکمہ کونوکارپس کی تیاری کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ کام جلّو میں موجود نرسری میں ہو رہا ہے اور ظاہر ہے کہ سفیدہ تو دونوں ہی نرسریوں میں موجود ہے۔ اگر ہم پورے پاکستان میں موجود تمام نرسریوں کی پیداواری صلاحیت مجتمع کرلیں، تب بھی اگلے 5 سال کے لیے روزانہ 55 لاکھ پودے حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہوگا۔ ایسی کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے جو کسی ڈنڈے کو درخت بنا دے۔ مطلوبہ تعداد دستیاب نہیں ہوگی۔
اس کے علاوہ زیادہ تٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍر مقامی انواع کو جانور استعمال کرلیتے ہیں۔ اس لیے اگر مثال کے طور پر پُرعزم نوجوان پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں 1 لاکھ درخت لگا دیں، تب بھی ان میں سے زیادہ تر جانوروں کے پیٹ میں جائیں گے۔
مقامی انواع کے بچ جانے کی شرح صرف 15 فیصد ہے۔ سادہ الفاظ میں کہیں تو 5 سال میں 10 ارب درختوں کا خواب صرف ایک لاحاصل خواب ہے، جسے زیرِ اثر ہو کر دیکھا گیا ہے۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 13 ستمبر 2018 کو شائع ہوا۔
انگلش میں پڑھیں۔