نقطہ نظر

مِرا مزاج بچپن سے ہی کاہلانہ ہے

منیر نیازی صاحب تو ہر کام کرنے میں ہمیشہ دیر کردیتے تھے، مگر ہم عمل سے ایسے بے نیاز ہیں کہ سِرے سے کچھ کرتے ہی نہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے دنیا بھر میں سُست اور چُست ترین افراد کا سروے کرکے فہرست جاری کردی ہے جس کے مطابق کویت سُست ترین اقوام میں سب سے آگے اور چست یا متحرک ترین لوگوں کے ملکوں میں یوگنڈا سرفہرست ہے۔

اب بھئی ہم یہ کیوں سمجھیں کہ کویتیوں کا کاہل ہونا دولت کی بہ دولت ہے؟ ہم پوری کاہلی سے کام لیتے ہوئے یہ نتیجہ کیوں اخذ نہ کریں کہ اہلِ کویت کی مالی حالت ان کی سستی کی مرہونِ منت ہے۔ رہا یوگنڈا کا اعزاز، تو بھیّا کیا ملا چُست ہو کر؟

اس فہرست کی خبر پڑھ کر پہلے تو ہمیں شدید حیرت ہوئی کہ جس قوم میں ہم جیسا سُست الوجود پایا جاتا ہو اس کا نام سرِفہرست تو کجا، دُور دُور تک نہیں۔ اس حیرت کی شدت نے ہمیں اتنا تھکا دیا کہ ہم پڑکر سوگئے۔ جاگے تو اس نکتے سے دماغ روشن ہوگیا کہ مالی ترقی کی معراج پانا ہے تو نہ صرف کاہل بلکہ بحرالکاہل ہونا پڑے گا۔ ہمارے اس فلسفے کی قبولیت کے لیے سست الوجود افراد کے ملک کویت کی مثال کافی ہے۔

مزید پڑھیے: کھانا نہ پکانے کی ترکیبیں

جہاں تک ہماری کاہلی کا تعلق ہے تو اس کا اندازہ یوں کرسکتے ہیں کہ ہم ہر اس کام سے لاتعلق رہے جس میں ہوتی ہو محنت زیادہ۔ بعض لوگوں کا مزاج لڑکپن سے عاشقانہ ہوتا ہے ہمارا بچپن ہی سے کاہلانہ ہے۔ ہمیں ہر صبح جھنجھوڑ کر اُٹھایا جاتا، مگر جب ہمارے پائے استقامت ذرا بھی جنبش نہ پاتے اور بستر سے نیچے نہ آتے، تو ’اسکول نہیں جانا تو چُھڑوا کر کسی مکینک کے پاس بٹھا دیں؟‘ کہہ کر ہمیں غیرت دلانے کی کوشش کی جاتی، جسے پیشکش سمجھ کر ایسے خوش اور مطمئن ہوتے کہ دوران نفرین ہی پھر سوجاتے۔

آخرکار ڈھٹائی ڈانٹ سے ہار جاتی اور ہم اتنی ہی بے بسی کے ساتھ بستر چھوڑتے جتنی مجبوری میں آمر کرسی چھوڑتے ہیں۔ قسم لے لو جو ہم نے کبھی اسکول سے ملنے والا ہوم ورک کیا ہو۔ ہوم ورک کو ہمیشہ اسکول کی امانت سمجھا اور جیسا ملا جوں کا توں واپس کردیا۔ رہے گھر کے کام، تو ہمارا مقولہ ہے کہ جب آج کا کام کل پر چھوڑا جاسکتا ہے تو آج کیوں کریں؟ اب اس میں ہمارا کیا قصور کہ وہ کل کبھی آتی ہی نہیں۔

یوں تو پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آجاتے ہیں مگر بزرگ بتاتے ہیں کہ ہمارے پاؤں پالنے میں بھی چلتے کم ہی نظر آتے تھے۔ ہمارے لچھن دیکھ کر سمجھ جانا چاہیے تھا کہ لڑکا کچھ کرنے کے لیے پیدا نہیں ہوا، اس پر علم و عمل کا کوئی بوجھ نہ ڈالا جائے، مگر ان بزرگوں کو کون سمجھائے۔ خیر، بچپن سے اب ہم اس عمر کو پہنچ چکے ہیں جب آدمی ہر ’پَن‘ کرکے ’پُن‘ کی فکر میں لگ جاتا ہے۔ اب ہمارے حالات سے کردار و اطوار تک سب کچھ بدل چکا ہے مگر ایک کاہلی ہے جو وفا شعار بیوی کی طرح ہمارے ساتھ ہے، گویا جو رہی تو کاہلی ہی رہی۔

سو حال یہ ہے کہ منیرنیازی صاحب تو ضروری بات کرنی ہو، کسی سے ملنے جانا ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو، اُسے آواز دینی ہو، اُسے واپس بلانا ہو ہر کام کرنے میں ہمیشہ دیر کردیتے تھے، مگر ہم عمل سے ایسے بے نیاز ہیں کہ سِرے سے کچھ کرتے ہی نہیں۔ ضروری بات کرنی ہو تو خود کو بہلا لیتے ہیں کہ کون سی اتنی ضروری ہے، چھوڑو دفع کرو۔ کسی سے ملنے جانے کا تو خیال ہی ہماری روح قبض کرلیتا ہے اور یہ سوچ کر سکون سے بیٹھ جاتے ہیں کہ ’ارے مرے کیوں جارہے ہو، وہ خود آئے تو مل لیں گے۔‘

رہی وعدہ نبھانے کی بات تو بھیّا وعدہ کوئی ازدواجی تعلق تو ہے نہیں جسے نبھایا جائے۔ وعدوں اور دعوؤں کے معاملے میں بندے کو سیاست داں ہونا چاہیے۔ بات یہ نہیں کہ ہم وعدہ نبھانا نہیں جانتے، بس یوں ہے کہ ہم وعدہ کرتے ہی اس طرح ہیں کہ عہد شکنی کا الزام نہ لگے۔ مثلاً بیگم نے جب بھی ہمیں سگریٹ پیتے دیکھ کر تمباکو نوشی چھوڑنے کا اصرار کیا تو ہم نے کسی تکرار کے بغیر فوراً وعدہ کرلیا، ’ہاں اسے چھوڑ دوں گا‘ اور یہ وعدہ پوری طرح اور اس طرح نبھایا کہ جو سگریٹ منہ سے لگی تھی اسے پینے کے بعد دوبارہ نہیں پیا۔

مزید پڑھیے: عمران خان کے نام وزیرِاعظم ہاؤس کی بھینسوں کا خط

’اُسے آواز دینی ہو، اُسے واپس بلانا ہو‘ تو منیر نیازی محض تاخیر کا شکار ہوجاتے تھے، لیکن ہمارے ہاں اس معاملے میں دیر ہی نہیں اندھیر بھی ہے۔ کوئی جائے تو ہم ایک طویل جماہی لے کر سوچتے ہیں ’جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی‘ تو ہم میں ایسے کیا گُن ہیں کہ جانے والا ہماری آواز پر رُک جائے گا، خوامخواہ گلے کو تھکا کر کیا کرنا، اس لیے روکو مت، جانے دو۔

جانے والوں کو جانے دیجیے ہماری کاہلی تو آنے والوں کی آمد کے بھی آڑے آتی رہی ہے۔ ہماری بھری جوانی میں کئی آنے والیاں اس لیے آتے آتے رُک گئیں کہ یہ مُوا تو ایک قدم آگے نہیں بڑھتا۔ انہوں نے اسے ہماری شرافت پر محمول کیا، حالاں کہ ہم میں کسی کی پیش قدمی سے قدم ملانے کے لیے پورا پورا شر موجود تھا۔ معاملہ شرم آنے کا بھی نہیں تھا، کیوں کہ جس نے بھی ہم سے شرما کے کہا ’شرم نہیں آتی؟‘ تو ہمارا جواب تھا کہ ’آتی ہے، مگر شرما کر واپس چلی جاتی ہے۔‘

لکھنے لکھانے کے باب میں بھی ہم اُس سستی کا شکار ہیں کہ خدا کسی دشمن کو بھی نہ دے۔ اس کاہلی کے باعث کتنی ہی نظمیں ادھوری رہ گئیں اور کیا کیا مطلعے ذہن کے افق پر جگمگا کر غروب گئے، کئی تحریریں مکمل ہونے کے انتظار میں کاغذ کا کفن اوڑھے گُم ہوگئیں اور بہت سے خیال کہانی بننے کے منتظر رہ کر وفات پاگئے۔

مزید پڑھیے: گر مولانا فضل الرحمٰن صدر بن گئے تو؟

ساری سُستی اپنی جگہ مگر ایک معاملے میں ہم بہت چُست ہیں۔ ہم اپنے دوستوں اور عزیز و اقارب کو، بہ شرطِ ملاقات، یہ بتانا نہیں بھولتے کہ بھیّا! شادی بیاہ ہو یا کوئی اور تقریب، کوئی کام پڑے یا مشکل، ہم سے مت کہنا، ہم کسی کام نہیں آسکتے۔

اور ہم یہ صرف کہتے ہی نہیں بلکہ وقت پڑنے پر اپنا قول نبھاتے بھی ہیں۔

ایک یہی تو قول ہے جو ہم نبھا سکتے ہیں۔ؤ

عثمان جامعی

عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔