نقطہ نظر

وازوان: بادشاہوں اور ملکاؤں کا پکوان

اس شاندار پکوان کی تیاری میں گھنٹوں تک نہایت مہارت اور نفاست کے ساتھ محنت کرنی پڑتی ہے۔

چاروں طرف پہاڑوں سے گھری ہوئی وادی کشمیر دلکش مناظر، لطیف موسم، برف سے ڈھکی ہوئی چوٹیوں، نیلے پانیوں، ثقافتی ورثے، اور یقینی طور پر منہ میں پانی بھر دینے والے کھانوں سے مالامال ہے۔

کشمیری پکوان کی ڈشیں روغن جوش، مدھر پلاؤ، مٹھ گنڈ، یخنی، دم آلو، کشمیری موجہ گاڑ، آب گوشت، گوشتابہ، اور کئی دیگر آپ کی بھوک تو مٹا دیں گی مگر آپ کی حسِ ذائقہ ان کے بھرپور ذائقے سے کبھی بھی ان سے سیر نہیں ہوگی۔

اگر آپ کو ایک ہی ساتھ ان تمام لذیذ ڈشز کو چکھنے کا موقع ملے تو؟ یہ صرف تب ممکن ہے جب آپ وازوان کا مزہ لیں۔ اور آپ کو اپنی زندگی میں یہ کم از کم ایک بار تو ضرور کرنا چاہیے۔ وازوان روایتی کشمیری پکوان میں ایک کئی ڈشز پر مبنی غذا ہے جس میں تمام طرح کی ذائقہ دار ڈشز موجود ہوتی ہیں۔ اسے خصوصی مواقع، مثلاً شادیوں یا منگنیوں میں بنایا جاتا ہے مگر اسے تعزیت یا چہلم کے موقع پر بھی عذر خواہوں کے لیے بنایا جاتا ہے۔ مگر باقاعدہ رسمی وازوان تو ایک شاہی دعوت کی طرح ہوتا ہے۔

پڑھیے: پکوان کہانی: مٹن دم بریانی

کوشر (کشمیری) زبان میں واز کا مطلب پکانا اور وان کا مطلب دکان ہوتا ہے۔ وازوان میں کم از کم 7 ڈشیں لازماً جبکہ زیادہ سے زیادہ 30 ڈشیں ہو سکتی ہیں۔ 17 سے لے کر 22 ڈشز ایسی ہیں جن میں موقع محل اور میزبان کی معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے گوشت استعمال ہوتا ہے۔ یہ آسانی سے سب سے بھرپور اور سب سے مہنگی دعوتوں میں سے ہوسکتی ہے۔ صدی در صدی وازوان کا مقدار اور معیار دونوں ہی کے حوالے سے ارتقاء ہوا ہے۔

اسلام آباد میں مقیم صحافی اور سماجی کارکن سعدیہ مظہر کہتی ہیں کہ "مجھے 30 سے زائد ڈشز پر مبنی اس کشمیری روایت وازوان کے بارے میں جان کر بہت حیرانی ہوئی تھی۔ یونیورسٹی میں ایک کشمیری دوست نے ایک بار اس کے بارے میں بتایا تھا اور ہم نے سوچا تھا کہ اسے ایک اور کشمیری دوست کے گھر پر چکھیں گے۔ یہ واقعی ایک زبردست تجربہ تھا کیوں کہ کشمیری پکوانوں میں اپنی ایک انفرادیت ہے جو کہ ان کی میزبانی سے ظاہر ہوتی ہے۔"

وازوان پکانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔

وازوان کی تاریخ کشمیر میں 14 ہویں صدی میں مسلمانوں کی آمد سے شروع ہوتی ہے۔ سمرقند سے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ جولاہے، لکڑی تراشنے والے، ماہرینِ تعمیرات، نقاش، اور باورچی بھی ان کے ساتھ آئے تھے۔ یوں وادی میں اچانک فن اور کھانے کی صنعت میں زبردست تیزی آئی۔ نتیجتاً کشمیری پکوان ذائقے سے بھرپور مصالحوں کے استعمال کی وجہ سے زیادہ وسیع ہوا۔ مگر کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ وازوان کشمیر میں قرونِ وسطیٰ کے حکمرانوں، صوفیوں، اور مسلم مبلغین کے ساتھ ایران سے آیا۔ مسلمانوں نے کشمیری پکوان میں زعفران، خشک میوہ جات، کشمیری سرخ مرچیں، مکھن اور گھی، لہسن اور ٹماٹر متعارف کروائے۔

اس شاندار پکوان کی تیاری میں گھنٹوں تک نہایت مہارت اور نفاست کے ساتھ محنت کرنی پڑتی ہے۔ وازوان کو نکل چڑھے ہوئے تانبے کے برتنوں میں لکڑی کی ہلکی آنچ پر پکایا جاتا ہے۔ اس کے لیے کیکر کی لکڑی استعمال کی جاتی ہے جسے کچن کے پاس ایک عارضی چھپرے کے نیچے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ وازوان پوری رات ایک ماہر باورچی کی زیرِ نگرانی تیار ہوتا ہے جسے مقامی طور پر ووستہوازہ کہتے ہیں۔ جب مہمان آتے ہیں تو انہیں 4 افراد کی ٹولیوں میں بٹھایا جاتا ہے اور پھر وہ 'ٹریم' کہلانے والے تانبے کے ایک بڑے تھال میں سے کھاتے ہیں۔

ایک بار جب مہمان ہاتھ دھو کر کھانے کے لیے بیٹھ چکیں تو انہیں چاولوں یا پلاؤ پر سیخ کباب، تبق ماز (گھی سے بھرپور شوربے میں دو دفعہ پکا ہوا مٹن)، زعفران یا سفید ککڑ (سفید یا زعفران کے شوربے میں پکی ہوئی مرغی)، میتھی قورمہ (خشک میتھی میں پکی ہوئی مرغی یا مٹن، روغن جوش، اور دیگر ڈشیں ایک کے بعد ایک آتی رہتی ہیں۔

مین کورس ایک گھنٹے تک چلتا ہے۔ ڈشز کے ساتھ 6 سے 8 طرح کی چٹ پٹی چٹنیاں ہوتی ہیں جن میں سے کچھ میں تو گریاں اور خشک میوہ جات بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ مین کورس کے اختتام کا اشارہ تب ہوتا ہے جب وازہ گوشتابہ لاتا ہے جو کہ ساری رات دہی اور دیگر مصالحوں کے ساتھ پکنے والی گوشت کی بڑی گیندیں ہوتی ہیں۔ ایک طرح سے یہ مینیو کا اہم ترین آئٹم ہے کیوں کہ وازوان کے مجموعی معیار کو گوشتابہ کی تیاری سے پرکھا جاتا ہے۔

مین کورس کے بعد میٹھے کی باری آتی ہے جس میں فیرنی، حلوہ، اور میٹھے شربت شامل ہیں۔ ان آئٹمز کے علاوہ وازوان میں پیش کی جانے والی دیگر ڈشز میں آب گوشت (بھیڑ کا مصالحے دار گوشت)، رِستا (مٹن کی گیندیں جنہیں سرخ شوربے میں پکایا جاتا ہے)، میتھی ماز (بھیڑ کے گوش کی ڈش جس میں میتھی کا ذائقہ غالب ہوتا ہے) اور دنہِ فول (مٹن کی ایک اور ڈش) بھی پیش کیے جاتے ہیں۔

پڑھیے: پکوان کہانی: نمکین گوشت

آزاد جموں و کشمیر کے علاقے مظفرآباد میں روایتی کشمیری ڈشز پیش کرنے والے کیٹرر فیصل جمیل کشمیری کہتے ہیں کہ "درکار محنت، وقت، اور مہارت کی وجہ سے آپ مظفرآباد کے کسی ریسٹورنٹ میں وازوان آرڈر نہیں کر سکتے۔ اپنے لذیذ کشمیری کھانوں کی وجہ سے پہچانے جانے والا لالہ زار کیفے شاید وہ واحد جگہ ہو جہاں یہ دستیاب ہے۔"

وہ کہتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر سے آنے والے مہاجرین جو آزاد جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں بس گئے ہیں، وہ خصوصی مواقع پر وازوان پکاتے ہیں۔ مہمان کو پیش کیا جانے والا وازوان ایک طرح سے اسٹیٹس سمبل ہے کیوں کہ اس سے میزبان کی سخاوت اور مہمان نوازی کی عکاسی ہوتی ہے۔

وازوان کو انتہائی احتیاط سے برتا جاتا ہے اور اس کی تیاری ایک آرٹ ہے، اور اسے کشمیری ثقافت اور شناخت کا فخر تصور کیا جاتا ہے۔

یہ مضمون ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں 9 ستمبر 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

مبشر نقوی

لکھاری شعبہ میڈیا اسٹیڈیز میں پی یچ ڈی اسکالر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔