تاریخ میں گامے کی نواسی کا نام کوئی نہیں مٹا سکتا ...
نواز شریف کو اب باؤجی کون کہے گا؟
یہ اعزاز تو رستم زمان گاما پہلوان کی نواسی اور 3 بار خاتونِ اول بننے والی کلثوم نواز کو ہی حاصل تھا۔
وہ ایک عام سی لڑکی، ایک گھریلو عورت یا بظاہر ایک ’غیر سیاسی‘ خاتون جو اس وقت سیاست کے کارزار میں قدم رکھنے پر مجبور ہوجاتی ہے جب ظلم حد سے بڑھ چکا ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایسی خواتین کی متعدد مثالیں ملتی ہیں جن میں فاطمہ جناح، نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو، عاصمہ جہانگیر اور خود کلثوم نواز کے نام نمایاں ہیں۔
کئی ہفتے وینٹیلیٹر پر پڑے رہنے کے بعد وہ اس جہانِ فانی سے 68 سال کی عمر میں کوچ کرگئیں مگر جس دھج سے وہ ہم سے جدا ہوئیں وہی ان کی ’شان‘ کی سلامتی کی ضمانت ہے۔
جب جب تاریخِ پاکستان کی نڈر، دلیر اور جرات مند خواتین کا باب لکھا جائے گا تو کلثوم نواز کے ذکر کے بغیر یہ ادھورا رہے گا۔ ان کی وفات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی تو ان کے ایسے نڈر اقدامات کی خبریں بھی منظرِ عام پر آنے لگیں جنہیں نہ تو انہوں نے کبھی اپنی ذاتی تشہیر کے لیے استعمال کیا تھا اور نہ زیادہ تر لوگ واقف تھے۔
پڑھیے: خاموش طبع اور پُراثر سابق خاتونِ اول کلثوم نواز
سوشل میڈیا پر عوامی ورکر پارٹی کے رہنما فاروق طارق نے میاں نواز شریف کے تیسرے دورِ حکومت میں اٹھائے گئے 5 بلاگروں کی رہائی میں کلثوم نواز کے کلیدی کردار کی خبر دی جس کے بارے فاروق کو عاصمہ جہانگیر نے مطلع کیا تھا۔ یہ جرات یقیناً انہیں اپنے نانا اور عالمی شہرت یافتہ گاما پہلوان سے وراثت میں بھی ملی ہوگی، مگر اس کا سیاسی اظہار انہوں نے ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے مارشل لاء کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں پہلی مرتبہ کیا تھا۔
کلثوم نواز 1950ء میں ڈاکٹر حفیظ کے گھر مصری شاہ میں پیدا ہوئیں۔ لیڈی گریفن اسکول گڑھی شاہو سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسلامیہ کالج کوپر روڈ سے ایف اے کیا۔ ایف سی کالج سے بی اے کرنے کے بعد کلثوم نواز نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ 3 دفعہ وزیرِاعظم بننے والے پاکستان کے واحد رہنما اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف سے ان کی شادی اپریل 1971ء میں ہوئی۔
وہ ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں اور نواز شریف کی ہمراز بھی کہ سیاست کے راز و نیاز سے وہ برابر باخبر رہی ہوں گی۔ چوتھے مارشل لاء تک وہ 2 بار خاتونِ اول بھی رہ چکی تھیں۔ طاقت اور مفادات کے کھیل کو نزدیک سے بھی دیکھا ہوگا اور راج دربار کی غلام گردشوں میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورہ لاہور کے بعد امڈ آنے والی بلند سرگوشیوں سے بھی واقف ہوں گی۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں 11 اکتوبر 1999ء کو اس وقت بھی خدشات نے گھیر رکھا تھا جب نواز شریف لاہور سے اسلام آباد روانہ ہو رہے تھے۔