— ایک کسان پشاور میں اپنے کھیت سے لوکی کی کاشت کر رہے ہیں — شہباز بٹ، وائٹ اسٹار
مئی کی ایک دوپہر میں لاہور کے ایک مذبح خانے میں تناؤ بھی درجہ حرارت کی طرح بلند ہے کیوں کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی (پی ایف اے) کی ایک ٹیم اس کا معائنہ کر رہی ہے اور کافی امکان ہے کہ اس کا کام روک دیا جائے گا۔
اس مذبح خانے کی جانچ پڑتال پہلی بار نہیں کی جا رہی۔ اس پر 6 ماہ قبل 2016 کے اختتامی دور میں بھی چھاپہ مارا گیا تھا۔ اس وقت پی ایف اے نے اسے سیل کر کے اس کی انتظامیہ کو اس میں کام کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے کچھ وقت دیا تھا۔ انہوں نے شرائط کو پورا کیا اور یوں انہیں کام دوبارہ شروع کرنے کی اجازت مل گئی۔
مگر شہر کی مشرقی جانب مزدوری پیشہ علاقے ہربنس پورہ میں واقع اس مذبح خانے میں لگتا ہے کہ صورتحال دوبارہ بگڑ گئی ہے۔
اس کے مرکزی حصے میں کھڑکی کے ساتھ ایک اسٹیل کی میز رکھی ہے۔ کھڑکی کے دوسری جانب بالغ مرغیاں ایک پنجرے میں بیٹھی ہیں۔ ایک شخص وہاں انہیں ذبح کر رہا ہے اور میز پر کام کر رہے لوگوں کو کھڑکی سے تھما رہا ہے۔ یہ لوگ ذبح ہو چکی مرغیوں کو اسٹیل کی بڑی قیفوں میں ڈال دیتے ہیں۔ ان قیفوں سے خون بہہ کر نیچے ایک دھاتی ٹرے میں جمع ہو جاتا ہے جس پر مکھیاں جمع ہیں اور جس سے سخت بدبو اٹھ رہی ہے۔ ٹیبل پر بھی خشک خون پپڑیوں کی طرح جما ہوا ہے۔
کمرے کی دوسری جانب کچھ دیگر لوگ اسٹیل کی میزوں پر کام کر رہے ہیں۔ وہ پرندوں کے پر اتار کر ان کی آنتیں، جگر اور دیگر اندرونی اعضا الگ کر رہے ہیں۔ وہ ان اندرونی اعضا، پنجوں اور سروں کو اپنے ساتھ رکھی پلاسٹک کی ٹوکریوں میں پھینک دیتے ہیں۔ پَر اور آنتوں وغیرہ سے زمین بھری پڑی ہے جبکہ جن میزوں پر گوشت اکھٹا کیا جا رہا ہے وہاں بھی خون جما ہوا ہے۔
پی ایف اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز فرحان اسلم اس پورے منظر سے ناخوش نظر آتے ہیں۔ وہ مذبح خانے کے مینیجر، درمیانی عمر کے بھاری بھرکم شخص رانا ساجد کو سمجھاتے ہیں کہ گوشت کے ساتھ ہی خون کی موجودگی حکومتی ہدایات کی خلاف ورزی ہے۔ پھر اسلم پوچھتے ہیں کہ فرش اور میزیں کتنی مرتبہ صاف کی جاتی ہیں؟ ساجد کہتے ہیں کہ ہر شام کو کام ختم ہونے کے بعد دھلائی کی جاتی ہے۔
ساتھ موجود ایک کمرے میں پلاسٹک کی ٹوکریوں میں موجود گوشت پر مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں۔ ایک پی ایف اے اہلکار ایک ٹوکری میں سے کچھ تلاش کرتا ہے اور اسے خون کے لوتھڑوں والے مرغی کے دو سینے کے ٹکڑے مل جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی زخمی مرغی کے ہیں جسے پراسیسنگ کے لیے کلیئر قرار نہیں دیا جانا چاہیے تھا۔ اسلم نوٹ کرتے ہیں کہ مذبح خانے کے زیادہ تر ملازمین مرغیوں سے چربی اتارنے، ان کے ٹکڑے کرنے اور انہیں دھونے کے دوران دستانوں اور سر پر جالی کا استعمال نہیں کر رہے۔
انہوں نے پہلے ہی دیگر مسائل کو نوٹ کر لیا ہے۔ انتظامیہ نے مذبح خانے میں داخل ہونے والوں کے لیے ہاتھ صاف کرنا، کام کے لیے خصوصی جوتے اور پورے جسم کا کوٹ پہننا لازم قرار نہیں دیا ہے۔ مذبح خانے میں کوئی مستقل ڈاکٹر یا لیبارٹری نہیں ہے کہ جو پرندوں کے ذبیحے اور پراسیسنگ سے پہلے ان کا بیماریوں اور زخموں کے لیے معائنہ کرے۔
اسلم اپنے ماتحتوں سے مذبح خانے کو سیل کرنے کے احکامات جاری کرتے ہیں۔ پی ایف اے کے اہلکار مذبح خانے کے ملازمین کو تمام پراسیس اور غیر پراسیس شدہ گوشت پلاسٹک کی ٹوکریوں میں جمع کرکے احاطے سے باہر نکل جانے کا کہتے ہیں۔ پی ایف اے ٹیم کی آمد کے ڈیڑھ گھنٹے کے اندر تمام داخلی اور خارجی دروازوں پر تالے ڈال کر پی ایف اے کی مہر والی نیلی تاریں لگا دی گئی ہیں۔ اب انہیں صرف پی ایف اے کے ڈائریکٹر جنرل کے احکامات کے تحت ہی ہٹایا جا سکتا ہے۔
مذبح خانے کے ملازمین سے گھرے ہوئے ساجد پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ وہ جلدی جلدی اپنے مالکان سے فون پر بات کرتے ہیں اور کھسر پھسر کے انداز میں اپنے ملازمین سے صورتحال پر گفتگو کرتے ہیں۔ وہ پی ایف اے کے اسٹاف سے بھی بحث کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ احتجاجاً کہتے ہیں، "یہ سیل کرنے سے متعلق ٹھیک احکامات نہیں ہیں۔ یہ مذبح خانہ ہے، کوئی فیکٹری نہیں، یہاں خون [کی موجودگی] لامحالہ ہے۔"
مگر اسلم کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ "میں اس صورتحال کی اجازت نہیں دے سکتا۔"
زاہد افتخار کراچی سے 100 کلومیٹر دور شمال مشرق میں نوری آباد کے علاقے میں پونے 3 ایکڑ اراضی پر مرغیاں پالتے ہیں۔ ان کے پولٹری فارم میں دو منزلہ دو عمارتوں کی صورت میں کُل 4 شیڈز ہیں جن کا کُل علاقہ 21 ہزار 150 مربع فٹ بنتا ہے۔ یہاں ایک چھوٹی سی آفس بلڈنگ اور 26 ملازمین کے رہنے کے لیے کوارٹرز بھی موجود ہیں۔
افتخار کراچی میں موجود ایک مشہور چکن پراسیسنگ کمپنی سے ایک دن عمر کی برائیلر مرغیاں خریدتے ہیں۔ انہیں جینیاتی طور پر منتخب افزائشِ نسل کے ذریعے پیدا کیا جاتا ہے جس سے وہ کچھ ہی عرصے میں کافی پُرگوشت ہو جاتی ہیں۔ ان کا وزن جلدی بڑھتا ہے اور دورِ بلوغت میں روزانہ 100 سے 110 گرام وزن بڑھتا ہے۔ اگر انہیں کنٹرولڈ حالات میں پالا جائے تو یہ صرف 35 دن کے اندر مکمل طور پر بالغ ہوجاتی ہیں۔
افتخار کے فارم میں سب کچھ خودکار انداز میں ہوتا ہے۔ شیڈز کے طول و عرض میں فرش سے کچھ انچ اوپر پائپس نصب ہیں جو فرش سے تھوڑی بلندی پر لٹکے ہوئے نارنگی اور پیلے پلاسٹک کے پیالوں میں فیڈ اور پانی ڈالتے ہیں۔ پیالے، جن میں سے ایک پانی اور ایک فیڈ کے لیے مختص ہے، باقاعدگی سے سپلائی وصول کرتے ہیں۔ ہر شیڈ کے داخلی حصے پر ایک میٹر اور ایک الیکٹرک پینل نصب ہے۔ یہ درجہ حرارت مانیٹر اور کنٹرول کرنے کے لیے ہے اور یہ کام 9 صنعتی سائز کے پنکھوں کے ذریعے کیا جاتا ہے، جبکہ گرمیوں کے مہینوں میں کبھی کبھی مرغیوں کو چھڑکاؤ کے ذریعے نہلا بھی دیا جاتا ہے۔ شیڈز میں قدرتی روشنی دیواروں میں موجود دراڑوں کے ذریعے داخل ہوتی ہے۔ شیڈز کو روشن کرنے کے لیے دن میں 22 گھنٹے بجلی کے بلب استعمال کیے جاتے ہیں۔
فارم میں 1 لاکھ 20 ہزار مرغیاں رکھنے کی گنجائش موجود ہے۔ ستمبر کے اوائل کے اس دن میں شیڈ اپنی مکمل صلاحیت پر ہیں اور ہر کسی میں 30 ہزار مرغیاں موجود ہیں۔ وہ فیڈ اور پانی کے قریب آنے کے علاوہ بمشکل ہی ہلتی جلتی ہیں۔ ان کی کبھی کبھی ہونے والی غٹرغوں بھی پنکھوں کے شور میں دب جاتی ہے۔
فارم میں آنے والی کسی بھی شخص کو سب سے پہلے فراہم کیے گئے کپڑے اور پلاسٹک کے چپل پہن کر ایک تالاب میں پیر ڈبونے پڑتے ہیں، اس کے بعد ہی شیڈ میں داخل ہونے کی اجازت ملتی ہے۔ یہ حفاظتی اقدامات اس لیے ہیں تاکہ پرندے ان جراثیم یا بیماریوں سے متاثر نہ ہوں جو باہر سے آنے والے لوگ اپنے ساتھ لا سکتے ہیں۔
ملازمین پورا دن شیڈز پر نظر رکھتے ہیں تاکہ مرغیوں میں کسی بھی بیماری کی نشاندہی کی جا سکے۔ کوئی بھی پرندہ جو سست یا پھر بیمار نظر آ رہا ہو اسے ایک چھوٹے، الگ تھلگ حصے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ پانی میں ملائی گئی ویکسین اسپرے کے ذریعے فراہم کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ مرغیوں کو ان کی پوری زندگی میں تین مرتبہ ویکسین دی جاتی ہے۔ فیڈ میں ملائی گئی یہ ویکسین انہیں بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہے۔
اگر مرغیوں میں بیماری پھیل جائے تو ہزاروں مرغیاں دنوں میں ہلاک ہوسکتی ہیں۔
ضیاء الدین گبول کا پولٹری فارم کراچی سے حیدرآباد جانے والی شاہراہ پر ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر جولب گوٹھ میں واقع ہے۔ یہ ایک مستطیل شیڈ ہے جس کی چھت بھوسے کی ہے جبکہ دیواروں کی جگہ لوہے کی جالی ہے۔ جھاڑیوں سے ڈھکے ہوئے چھوٹے، ریتیلے ٹیلوں سے گھرا ہوا یہ فارم ایک زیرِ تعمیر پوش ہاؤسنگ سوسائٹی کے نزدیک ہے۔
شیڈ کے اندر ساڑھے 3 ہزار سفید مرغیاں موجود ہیں جو تمام کی تمام 21 دن عمر کی ہیں اور ایک گرد آلود فرش پر جمع ہیں۔ یہ افتخار کے فارم کی مرغیوں سے زیادہ سرگرم نظر آتی ہیں۔ فضا ان کی مسلسل غٹرغوں سے پُر ہے۔ ان میں سے کچھ زمین پر پڑے ہوئے یا چھت سے لٹکے ہوئے لوہے کے پیالوں میں سے فیڈ کھا رہی ہیں۔ پانی سے بھرے پلاسٹک کے برتن بھی شیڈ میں قطار در قطار رکھے ہوئے ہیں۔ ملازمین پورا دن ان پیالوں اور برتنوں کو بھرتے رہتے ہیں۔ قدرتی روشنی شیڈ کو دن میں منور رکھتی ہے جبکہ چھت سے لٹکے ہوئے بلب مرغیوں کو رات میں روشنی دیتے ہیں۔
اس 'اوپن' شیڈ میں 'کنٹرولڈ' شیڈ کی نسبت مرغیوں کو مکمل بلوغت تک پہنچنے میں زیادہ وقت لگتا ہے اور یہ اپنے انتہائی وزن تک 47 دنوں میں پہنچتی ہیں۔
مرغیاں جب تقریباً 2 کلو وزن تک پہنچ جائیں تو انہیں مارکیٹ میں سپلائی کر دیا جاتا ہے۔ لوہے کے پنجروں میں ٹرکوں میں لاد کر ان میں سے زیادہ تر کو شہروں، قصبوں اور دیہات میں قصائیوں کی دکانوں پر لے جایا جاتا ہے جہاں انہیں اسی دن ذبح کر کے فروخت کر دیا جاتا ہے۔ دیگر مرغیوں کو لاہور میں پی ایف اے کے سیل کیے گئے مذبح خانے جیسی جگہوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے یا پھر بڑے مذبح خانوں کو جو بڑی، قومی سطح کی کمپنیوں مثلاً کے این اینز یا بِگ برڈ گروپ کی ملکیت ہوتے ہیں۔ ذبح، پراسیس اور پلاسٹک کے ڈبوں میں پیک کیے جانے کے بعد انہیں فریز کرکے دکانوں پر بھجوا دیا جاتا ہے۔
انڈے سے نکلنے سے لے کر کھانے کی میز پر پہنچنے تک کا مرغی کا سفر تقریباً سبھی کو معلوم ہے مگر پھر بھی پولٹری کی صنعت اکثر اوقات منفی توجہ حاصل کرتی ہے۔