خاموش طبع اور پُراثر سابق خاتونِ اول کلثوم نواز
جیل میں سزا کاٹنے والے سابق وزیرِاعظم میاں نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی مریم نواز کے لیے تو خونی رشتے کے حوالے سے یہ ایک بہت بڑا صدمہ اورسانحہ تو ہوگا ہی، مگر شریف خاندان سے دشمنی کی حد تک مخالفین نے بھی بیگم کلثوم نواز کے انتقال کی خبر کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا اور اُس نیک نڈر خاتون کی مغفرت کے لیے ہاتھ اٹھائے ہوں گے۔
کہا جاتا ہے کہ مَردوں خاص طور پر سیاستدانوں کی زندگی میں اُن کی بیگمات کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ مثالوں کے لیے ایک طویل باب کھولا جاسکتا ہے مگر حالیہ تاریخ میں ایک مثال مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی ہے۔
جب بھٹو کی حکومت ختم کی گئی اور پھر انہیں پھانسی کے تختے پر چڑھا کر فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق اور اُن کا ٹولہ یہ یقین کر بیٹھا تھا کہ انہوں نے بھٹو کے ساتھ پیپلز پارٹی کو بھی گڑھی خدا بخش میں دفن کردیا، تو یہ بیگم نصرت بھٹو اور اُن کی صاحبزادی ہی تھیں جنہوں نے نہ صرف پیپلز پارٹی کو زندہ کیا بلکہ بھٹو صاحب کی سیاسی وراثت کو بھی ایسا دوام بخشا کہ 4 دہائی بعد بھی بھٹو صاحب کروڑوں عوام کے دلوں میں دھڑکتے ہیں۔
پڑھیے: نواز شریف کی کلثوم نواز سے آخری گفتگو
اکتوبر 1999ء میں جب 2 تہائی اکثریت رکھنے والے وزیرِاعظم نواز شریف کو سیاسی منظرنامے سے ہٹایا گیا تو یہ اُن کی بیگم کلثوم نواز ہی تھیں جنہوں نے اپنے شوہر کی رہائی کے لیے ملک گیر مہم چلائی۔ نواز شریف کی سیاست کا آغاز 1985ء میں ہوا، 2 مرتبہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب بننے کے بعد 2 بار وزیرِ اعظم بنے مگر اس سارے دور میں کلثوم نواز کی حیثیت ایک Low Profile گھریلو خاتون کی ہی رہی۔
مگر جب اکتوبر 1999ء میں کڑا وقت آیا، جیل اور پھر جلاوطنی کی سختیوں کے دور کا آغاز ہوا تو اُن کے جانثار ساتھیوں سے بڑھ کر بیگم کلثوم نواز نے مشرف کی ڈکٹیٹرشپ کا مقابلہ کیا۔