چین کا آن لائن مذہبی سرگرمیوں کے خلاف نئے قوانین بنانے کا فیصلہ
چین کی حکمراں جماعت کمیونسٹ پارٹی نے گرجا گھروں،مساجد اور دیگر اداروں کے خلاف کارروائی کے تناظر میں انٹرنیٹ پر مذہبی سرگرمیوں کے لیے نئے قوانین لاگو کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق چین کی ریاستی انتظامیہ برائے مذہبی امور کی طرف سے آن لائن شائع کیے گئے قواعد و ضوابط کے مسودے کے مطابق مذبی معلومات یا اسی طرح کی آن لائن سروس فراہم کرنے کے خواہش رکھنے والے افراد کو اپنے نام سے درخواست دینا ہوگی ،جسے اخلاقی اورسیاسی اعتبار سے قابل اعتماد جانچ کر پھر فیصلہ کیا جائے گا۔
قوانین کے مطابق لائسنس حاصل کرنے والے اسکول اور دیگر ادارے اپنے نجی نیٹ ورک میں ہی کام کرسکیں گے جس کے لیے صارفین کو رجسٹرڈ کیا جانا ضروری ہوگا تاکہ مذہبی مواد اور پیغامات تقسیم کرنے اور مذہب تبدیل کروانے کی کوششوں سے روکا جاسکے۔
چین نے کسی بھی جماعت کے رہنما اور سرکاری مذہبی پالیسیوں سمیت اقلیتوں کی جانب سے مذہبی شراکت کو فروغ دینے اور مذہب کو سوشلسٹ سسٹم پر حاوی ہونے سے متعلق آن لائن پوسٹ کرنے پر بھی سخت پابندیاں عائد کی ہیں ۔
علاوہ ازیں مذہبی سرگرمیوں جیسی عبادات، تبلیغ اوردیگر رسومات کو براہ راست نشر کیے جانے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔
مزید پڑھیں :چین میں یوغور مسلمانوں کو قید کیے جانے پر اقوام متحدہ کا اظہار تشویش
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ 1982 کے بعد سنگین ترین کریک ڈاؤن ہے، 1982 میں مذہبی آزادی کو چینی آئین میں لکھ دیا گیا تھا۔
چین کا قانون مذہبی پیروکاروں کو حکام سے رجسٹرڈ شدہ اجتماعات میں عبادت کی اجازت دیتا ہے جبکہ گھروں میں مذہبی مشاورت پر پابندی عائد ہے۔
چین میں سرکاری سطح پر تسلیم شدہ مذاہب بھی حکام کی جانب سے جاری کارروائیوں سے متاثر ہورہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : چین: ‘یوغور اقلیت کو حراستی کیمپوں میں قید رکھنا خوفناک ہے
خیال رہے کہ چین کے شمال مغربی خطے سنکیانگ میں تقریبا 10 لاکھ یوغور اور دیگر مسلم اقلیتی گروہ کے اراکین چین کے کیمپوں میں قید ہیں جہاں انہیں اسلام کو ترک کرنے اور حکمراں جماعت سے وفاداری کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔
تاہم چینی حکومت جنگی کیمپوں کی موجودگی کو مسترد کرتی ہے، اس حوالے سے چین کا کہنا ہے کہ ملک کے مغربی حصے میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جارہے ہیں۔