پاکستان

سانحہ 12 مئی کی تحقیقات کیلئے 'جے آئی ٹی' بنانے کا حکم

سندھ ہائیکورٹ نے سانحہ سے متعلق 65 کیسز کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے معاملے پر ایک سینئر جج مقرر کرنے کی درخواست کردی۔
|

سندھ ہائی کورٹ نے سانحہ 12 مئی سے متعلق مقدمے میں تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دے دیا۔

ہائی کورٹ کے جسٹس اقبال کلہوڑو اور جسٹس کے کے آغا پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سانحہ 12 مئی 2007 کی تحقیقات سے متعلق درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے معاملے کی ازسر نو تحقیقات کا حکم دیا، ساتھ ہی سندھ حکومت کو تحقیقاتی ٹربیونل تشکیل دینے کا بھی حکم دیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں سانحہ 12 مئی کے حوالے سے 65 کیسز کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا اور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے ایک سینئر جج مقرر کرنے کی درخواست کی۔

مزید پڑھیں: سانحہ 12 مئی: میئر کراچی سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد

عدالت نے سندھ حکومت کو بھی ہدایت کی کہ وہ معاملے کی تحقیقات کے لیے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کو خط لکھے۔

بعد ازاں عدالت کے تفیصلی فیصلے میں کہا گیا کہ تحقیقاتی ٹریبونل امن و امان خراب کرنے کے ذمہ داران کا تعین کرے اور اس بات کا بھی تعین کرے کہ کس کے حکم پر راستے بند کیے گئے اور شہر کا امن وامان خراب کیا گیا۔

سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ 12 مئی اور اس سے پہلے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین رابطوں کی تفصیلات طلب کی جائیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی کا بھی تعین کیا جائے۔

عدالت کی جانب سے فیصلے میں کچھ سوالات اٹھائے گئے کہ کیا اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری کو تقریب میں شرکت سے روکنے کے لیے وقافی اور صوبائی حکومت کا گٹھ جوڑ تھا؟ 12 مئی 2007 کو ملیر، سٹی کورٹ اور ہائیکورٹ کو مشتعل ہجوم نے کیوں اور کس کے حکم یرغمال بنایا؟ اور پولیس شرپسندوں پر قابو پانے میں کیوں ناکام ہوئی؟۔

عدالت نے پوچھا کہ 12 مئی کو ممکنہ صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے حکام کی جانب سے کیا احکامات دیے گئے؟ جبکہ پولیس نے کنٹینرز اور واٹر ٹینکروں سے بند راستے کھولنے کے لیے کیا اقدامات کیے تھے؟ اور آج ٹی وی کے دفتر پر شرپسندوں کی مسلسل فائرنگ کو کیوں نہیں روکا گیا؟۔

عدالتی فیصلے کے مطابق کیا چیف جسٹس کی کراچی آمد کے لیے فول پروف سیکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے؟ اور کیا ان کے استقبال کرنے والوان کو کسی خاص سیاسی جماعت نے نشانہ بنایا؟ اور اگر کسی خاص سیاسی جماعت کے کارکنوں نے نشانہ بنایا تو اس جماعت اور ذمہ دران کا تعین کیا جائے۔

سانحہ 12 مئی سے متعلق فیصلے میں سوالات پوچھے گئے کہ کیا سندھ حکومت امن وامان کی ممکنہ صورتحال سے آگاہ تھی ؟ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ میں کیوں ناکام ہوئے؟ اور کیا سندھ حکومت نے 12 مئی 2007 کو پولیس کی مدد کے لیے رینجرز سے مدد لی تھی ؟

عدالت نے یہ بھی سوال کیا کہ عوامی نیشنل پارٹی(اے این پی)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی جماعتوں کو 12 مئی کو ریلی نکالنے کی اجازت کیوں دی گئی؟

خیال رہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے 12 مئی 2012 کو چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کو 3 ماہ میں مقدمہ نمٹانے کا حکم دیا تھا۔

اس کے بعد عدالت نے فریقین کے وکلا اور عدالتی معاونین کے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، درخواست گزار اقبال کاظمی نے تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کی استدعا کی تھی۔

عدالت میں سماعت کے دوران وفاقی اور عدالتی معاونین نے کمیشن بنانے کے حق میں دلائل دیئے تھے اور کہا تھا کہ دو رکنی بینچ ازسر نو تحقیقات کے لیے کمیشن بنا سکتی ہے، تاہم اس معاملے پر سندھ حکومت کے وکیل نے مخالفت کی تھی۔

سندھ حکومت کے وکیل نے کہا تھا کہ 2018 میں ہائی کورٹ کا لارجر بینچ اس کیس کو ناقابل سماعت قرار دے چکا ہے، 11 سال کا عرصہ گزر چکا ہے اس میں مزید تحقیقات کی ضرورت نہیں، اس معاملے میں تمام متاثرین کو معاوضہ کی ادائیگی بھی کی جاچکی ہے۔

سانحہ 12 مئی

یاد رہے کہ 12 مئی 2007 کے روز جب اس وقت کی وکلا تحریک عروج پر تھی تو معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی کراچی آمد کے موقع پر ان کے استقبال کے لیے آنے والے سیاسی کارکنوں پر نامعلوم افراد نے گولیاں برسا دی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ 12 مئی کیس: مفرور 16 ملزمان کی گرفتاری کیلئے اشتہار

شہر میں کشیدگی کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب غیر فعال چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سندھ ہائی کورٹ بار سے خطاب کرنے کے لیے کراچی پہنچے تھے۔

تاہم اس وقت کی انتظامیہ نے انہیں کراچی ایئرپورٹ سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی تھی۔

اس روز کراچی کے مختلف علاقوں میں کشیدگی کے دوران وکلا سمیت 50 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔