پاکستان

پرویز مشرف غداری کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ

اب اس کیس کا فیصلہ کرنا ہے اور مقدمے کو حتمی نتیجے تک پہنچانا ہے، بینچ سربراہ جسٹس یاور علی
|

اسلام آباد: خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت 9 اکتوبر سے روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

جسٹس یاور علی کی سربراہی میں دو رکنی خصوصی بینچ نے پرویز مشرف غداری کیس کی سماعت کی۔

جسٹس یاورعلی نے ریمارکس دیئے کہ پرویز مشرف کی غیرموجودگی میں کیسے بیان ریکارڈ کیا جاسکتا ہے، بیان ریکارڈ نہ ہونے کی صورت میں سماعت کیسے چلائی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت 9 اکتوبر سے کیس کی روازنہ کی بنیاد پر سماعت کرے گی، اب اس کیس کا فیصلہ کرنا ہے اور مقدمے کو حتمی نتیجے تک پہنچانا ہے۔

جسٹس یاورعلی نے وزارت داخلہ سے پرویز مشرف کو وطن واپس لانے سے متعلق جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ مشرف کو کس طریقے سے واپس لایا جاسکتا ہے؟

وزارت داخلہ کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ انٹرپول کے ذریعے پرویز مشرف کی گرفتاری کی درخواست کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف سنگین غداری کیس: ایک مرتبہ پھر خصوصی عدالت قائم

بینچ کے سربراہ نے سوال کیا کہ کیا مشرف کو وطن واپس لانے کے لیے انٹرپول کےعلاوہ کوئی اور طریقہ نہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ، پرویز مشرف کا بیان ریکارڈ کرنے سے متعلق بتائے اور انہیں وطن واپس لانے سے متعلق آئندہ سماعت پر عدالت کو آگاہ کریں۔

خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس کی سماعت 9 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

سنگین غداری کیس

مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف وزارتِ داخلہ کے ذریعے سنگین غداری کیس کی درخواست دائر کی گئی تھی جسے خصوصی عدالت نے 13 دسمبر 2013 کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے سابق صدر کو 24 دسمبر کو طلب کیا تھا۔

پرویز مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوئے جس کے بعد عدالت نے 18 فروری 2014 کو ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے تھے۔

سابق صدر پر 31 مارچ 2014 کو فردِ جرم عائد کردی گئی تھی تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، بعدِ ازاں 17 جون سے استغاثہ نے اپنے شواہد پیش کرنا شروع کیے جو 18 ستمبر کو اختتام پذیر ہوئے۔

مزید پڑھیں: پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا بینچ ٹوٹ گیا

معزز عدالت نے 8 مارچ 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا۔

خیال رہے کہ عدالت نے 19 جولائی 2016 کو پرویز مشرف کو مفرور قرار دے کر ان کے خلاف دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیئے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دے دیا تھا، تاہم ان کے وکلا نے اس حکم نامے کو چیلنج کردیا تھا۔

بعد ازاں 2016 میں عدالت کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نام نکالے جانے کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

28 مارچ کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے خصوصی عدالت میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف زیرِ سماعت سنگین غداری کیس کا فیصلہ جلد سنانے کے لیے درخواست دائر کی تھی۔

29 مارچ 2018 کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت کے سابق سربراہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت سے معذرت کرلی تھی۔

یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ 8 مارچ 2018 کو استغاثہ کے وکیل محمد اکرم شیخ نے خصوصی عدالت کو اسلام آباد کی احتساب عدالت میں سابق وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کی غیر موجودگی میں ان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت کی بھی مثال دی۔

11 جون کو سپریم کورٹ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کا قومی شناختی کارڈ (این آئی سی) اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔

30 جولائی کو سنگین غداری کیس میں پراسیکیوشن کے سربراہ محمد اکرم شیخ نے استعفیٰ پیش کردیا تھا۔