وہ غلطیاں جو زندگی کو خوشحال بنانے کے بجائے بوجھ بنا دیتی ہیں
زندگی کو کس سمت لے جانا ہے یہ اختیار انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے، لیکن یہ سب کیسے کیا جائے، عام طور پر انسانوں کو اس کا علم کم ہی ہوتا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہنستی مسکراتی زندگی بھی مصیبت اور پریشانیوں کا شکار ہوجاتی ہے۔
لہٰذا مندرجہ ذیل کوشش کی جارہی ہے کہ ان غلطیوں کی نشاندہی کی جائے جو ہم کرتے تو روز ہیں لیکن اس کا ادراک نہیں کرپاتے۔
سود و زیاں
کھو دینے کا خوف اور پالینے کی حرص 2 ایسی بیڑیاں ہیں جو انسان کی حق گوئی اور اصول پرستی کو جکڑ لیتی ہیں۔
اگر آزاد انسان کی طرح جینا چاہتے ہو تو سود و زیاں سے بے نیاز ہوجاؤ۔
یہ مشکل ضرور ہے لیکن ویسے بھی وہ وقت دور نہیں جب سود و زیاں تو کیا، تم ہر چیز سے بے نیاز ہوجاؤ گے اور سب تم سے بے نیاز ہوجائیں گے۔
مردم شناسی و خود شناسی
اتنا نقصان ہم کمزور مردم شناسی سے نہیں اٹھاتے جتنا نقصان ہم کمزور خود شناسی سے اٹھاتے ہیں، لہٰذا دن رات دوسروں کی ذات پر نقب زنی کرنے کے بجائے اپنی ذات کا ادراک حاصل کیجیے تاکہ آپ کے فیصلے ہمیشہ درست ہوسکیں۔
دماغ کا خلل
اگر آپ اکثر اداس رہنے لگے ہیں، کبھی بہت خوش ہوجاتے ہیں، گہری سوچوں میں گم رہتے ہیں، دل اچانک تیز دھڑک اٹھتا ہے، کچھ کھو دینے کا خوف ہمہ وقت طاری رہتا ہے، نیند کم آتی ہے، بھوک موڈ سے لگتی ہے، کسی کا مسلسل انتظار رہتا ہے، نگاہیں خلاؤں میں گھورتی رہتی ہیں، دیواروں پر شبیہیں بنی نظر آتی ہیں، بارش میں موسیقی سنائی دیتی ہے، بادل کسی کا روپ دھارتے دکھائی دیتے ہیں، راہ چلتے روزانہ کئی بار ٹھوکر لگتی ہے، کام میں توجہ و ارتکاز نہیں رہا، خوش لباسی سے بے نیاز رہنے لگے ہیں، لوگ آپ کو خبطی، پاگل اور سائیں کہنے لگے ہیں تو آپ یہ نہ سمجھیں کہ آپ کو محبت ہوگئی ہے۔
دراصل یہ دماغ کے خلل کی علامتیں ہیں۔ فوراً کسی ماہرِ نفسیات سے رجوع فرمائیں۔
مفروضہ
میری زندگی کا ہر کام بلکہ زندگی کا پورا دار و مدار ہی اس مفروضے پر چل رہا ہے کہ ’میں نے ابھی نہیں مرنا‘۔ اگر یہ مفروضہ کسی وقت غلط ثابت ہوگیا تو میں کیا کروں گا؟
اس کے لیے میں نے کوئی مفروضہ قائم نہیں کر رکھا لہٰذا ایک بار یہ بھی فرض کرکے دیکھ لیں کہ ’میں نے جلد مرجانا ہے۔‘
معاشرتی زوال
جب معاشرے بدترین زوال کا شکار ہونے لگتے ہیں تو عالم اور جاہل یوں برابر ہوجاتے ہیں جیسے گہری تاریکی بینا اور نابینا کا فرق مٹا دیتی ہے اور وہ باہم دست و گریباں ہوتے ہیں۔
اگر تم کہیں ایسی کیفیت پاؤ تو اپنے علم کو چھپالو، جاہلوں سے گریز کرو اور بستی سے باہر کہیں جاکر شمع جلاؤ کہ دور سے آتی ننّھی سی کرن بھی ظلمتوں کا سینہ چیر سکتی ہے۔
معراج
خاموشی الفاظ کی معراج ہے کہ خاموشی کبھی کبھی وہ کچھ بتا جاتی ہے جو الفاظ بیان نہیں کرپاتے لیکن خاموشی کو سننا کسی کسی کا کام ہوتا ہے۔ اسی طرح آنسو خاموشی کی معراج ہے کہ آنسو کبھی وہ کہہ جاتے ہیں جو کہنا خاموشی کے بس کی بات نہیں ہوتی لیکن آنسوؤں کو پہچاننا کسی کسی کا کام ہوتا ہے۔
اگر تم خاموشی اور آنسوؤں کا درست استعمال سیکھ لو تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں معراج پانے سے نہیں روک سکتی۔
جذبات اور اظہار
ہر جذبہ اظہار کا محتاج ہوتا ہے۔
اظہار 3 ذرائع سے ہوتا ہے۔ اشیاء، الفاظ یا تاثرات سے۔ اشیاء کے لیے استطاعت چاہیے جبکہ الفاظ اور تاثرات کے لیے صلاحیت درکار ہوتی ہے۔
قدرت نے جذبات تو تمام بنی نوع انسان کو یکساں دیے ہیں البتہ اظہار کی استطاعت اور صلاحیت ہر کسی کی الگ الگ ہے۔
ہم سوچتے ہیں کہ ذریعہ اظہار کوئی بھی ہو، اظہار حسبِ استطاعت و حسبِ صلاحیت ہونا چاہیے اور مسئلہ یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ جب ہم کسی کے اظہار کو دیکھ کر اس کے جذبے کی گہرائی ناپنے لگتے ہیں، حالانکہ ہم دوسروں کی استطاعتِ اظہار اور صلاحیتِ اظہار سے واقف ہی نہیں ہوتے۔
اظہار میں کمی کوتاہی کو دیکھ کر دوسروں کے جذبات میں سقم تلاش نہ کریں کوئی کیسے بھی اظہار کرے۔ اپنی نظر اظہار کے پیچھے پوشیدہ جذبات پر رکھیں، آپ کی محبتیں قائم رہیں گی۔
یاد رکھیں! استطاعتِ اظہار اور صلاحیتِ اظہار ہر کسی کی الگ ہے، ہر کوئی آپ کے حسبِ توقع اظہار نہیں کرسکتا، یہ ایک حقیقت ہے۔
فضلِ الٰہی
آگے دیکھو تو لگتا ہے ابھی بہت کوشش کرنا باقی ہے جبکہ پیچھے مڑ کر دیکھو تو لگتا ہے سب کچھ بنا کوشش کے مل گیا۔
حقیقت یہی ہے کہ آج کی نعمتیں، کامیابیاں، ترقیاں ہماری کوشش سے زیادہ اللہ کے فضل کا نتیجہ ہیں اور یہ احساس ہوجانا بہت بڑا مقامِ شکر ہے۔
زہر اور تریاق
تمہاری خوشنودی پانے کے لیے اور تمہاری ناراضگی سے خائف ہمیشہ تمہاری ہاں میں ہاں ملانے والے میٹھے زہر کی مانند ہیں جبکہ تمہاری خفگی سے بے نیاز ہو کر محض تمہارے بھلے کی خاطر تمہیں غلط کہنے والے کڑوا تریاق ہیں۔
میں نے زندگی بھر لوگوں کو زہر کے پیالے بھر بھر کر پیتے اور تریاق کو تھوکتے ہوئے دیکھا ہے۔
یاد رکھیں، زہر موت ہے چاہے شہد سے زیادہ میٹھا کیوں نہ ہو اور تریاق زندگی ہے، خواہ زہر سے زیادہ کڑوا ہو۔
محبوبہ، بیوی اور بیوہ
گھنیرے بادل، موسلادھار برستی بارش، ٹھنڈی ہوائیں، سموسے، چائے اور برسات کی رومانویت اس وقت تک محسوس ہوتی ہے جب تک محبوبہ پروموشن پاکر بیوی نہیں بن جاتی۔
بدقسمتی سے پھر یہ کیفیت بیوی کے بیوہ ہونے تک برقرار رہتی ہے۔ اپنی بیوی کو محبوبہ بنا کر رکھیں، یہی حسنِ سلوک کی معراج ہے۔
عزت
عزت ’بنانا‘ اور عزّت ’بچانا‘ 2 مختلف کام ہیں۔
عزت بنانے کے لیے محنت چاہیے اور عزت بچانے کے لیے حکمت چاہیے۔ ’محنت‘ اور ’حکمت‘ کے حسین امتزاج سے ہی آپ معاشرے میں مسلسل باعزت رہ سکتے ہیں۔
بلاگر سوشل میڈیا سے رغبت نہیں رکھتے جب کہ پیشے کے لحاظ سے الیکٹریکل انجنئیر ہیں۔ آپ اُن سے بذریعہ ای میل بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔ nomanulhaq1@gmail.com
اگر آپ لکھاری سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں تو اس نمبر پر کیا جاسکتا ہے۔ 0309-4673593
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔