فیض احمد فیض فلم کے عملے کے ساتھ۔ تصویر بشکریہ عقیل عباس جعفری
فلم کے نائب ہدایت کاروں میں ایک اہم شخصیت شانتی کمار چترجی کی تھی، جنہوں نے انڈین متوازی سنیما کے ایک بڑے ہدایت کار ستیا جیت رائے کے ساتھ بھی کام کیا ہوا تھا، جبکہ فلم کے ایک اور نائب ہدایت کار ظہیر ریحان، جو بنگالی صحافی اور ادیب بھی تھے، وہ بھی اس فلم کے اراکین میں ایک اہم رکن تھے۔ ان کا شمار مشرقی پاکستان کی پہلی اردو رنگین فلم بنانے والے ہدایت کاروں میں بھی ہوتا ہے۔
دیگر تکنیک کاروں میں سادھنا رائے (سنیماٹوگرافی)، جان فلیچر (ساؤنڈ ریکارڈسٹ)، اور بل بوویٹ (ایڈیٹر) شامل تھے۔ برطانوی اخبار اور ویب سائٹ دی گارجین میں علی نوبل احمد کا لکھا ہوا مضمون اس فلم کے کئی دیگر پہلوؤں کو تفصیل سے بیان کرتا ہے۔
اداکاری و موسیقی اس فلم کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ اس کے اداکاروں میں چند مرکزی کرداروں کو چھوڑ کر باقی سب اصل زندگی میں مچھیرے ہی تھے، جنہوں نے اپنی حقیقی زندگی کو فلم کے پردے پر اداکاری کی صورت میں پیش کیا، اسی لیے فلم حقیقی تاثر لیے ہوئے تھی۔
مرکزی کرداروں میں ہیرو کے طور پر کام کرنے والے اداکار خان عطا الرحمٰن بنگالی اداکار تھے، جبکہ ان کے مدمقابل کام کرنے والی خاتون اداکارہ ترپتی مترا کا تعلق ہندوستان سے تھا۔ وہ انڈین تھیٹر سے وابستہ معروف اداکارہ اور اشتراکی نظریات کی مالک باشعور خاتون تھیں۔
دیگر اداکاروں میں قاضی خالق، مینا لطیف، نسیمہ خان، موئینا، رضوان، شمس الن مہار، مانو، پنو اور روکسی شامل تھے۔ اس میں زورین راکشی نے بھی اہم اور مرکزی کردار نبھایا تھا، جبکہ بطور اداکار یہ ان کی واحد فلم تھی۔ وہ ہنر کے اعتبار سے ایک مصور تھے، لیکن ان کی شہرت کا بڑا حوالہ یہ فلم بنی۔
اس فلم کے موسیقار تمرباران تھے، جنہوں نے 1935ء میں سہگل کی فلم دیو داس کا میوزک بھی دیا تھا۔ اس فلم کے گلوکاروں کے بارے میں معلومات ناپید تھیں جبکہ فلم ساز نعمان تاثیر اور راحت غزنوی بھی اس میں ان کے معاون موسیقار تھے۔ گلوکاروں کے حوالے سے نام معلوم نہیں ہو پا رہے تھے جس کے لیے فلمی محقق ملک یوسف جمال کی مرتب کردہ معلومات، جو مجھے محقق اور مؤرخ عقیل عباس جعفری کے ذریعے سے حاصل ہوئیں، کو یہاں شامل کیا تو گلوکاروں کے متعلق معلومات مکمل ہوئی ہیں۔
ان دونوں مؤرخین کے مطابق اس فلم کے گلوکاروں میں الطاف محمود، راحت غزنوی، محبوبہ حسنات، نیلوفر اور خان عطا الرحمٰن نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔ فلم کا مرکزی گیت 'بھور ہوئی گھرآؤ ماجی' ہے، جبکہ دیگر 3 گیتوں میں، 'اب کیا دیکھیں راہ تمہاری'، 'ڈوب گیا دن شام ڈھلی' اور 'موتی ہو کہ شیشہ ہو' شامل ہیں۔
آخری گیت معروف رقاصہ 'راکشی' پر فلمایا گیا تھا، مگر موجودہ دستیاب پرنٹ میں وہ گیت موجود نہیں ہے، بقول سلیمہ ہاشمی ’وہ گیت اُس وقت کا آئٹم نمبر تھا، جس کو فلمانے کے لیے خصوصی طور پر ان معروف رقاصہ کو پیشکش کی گئی تھی جو انہوں نے قبول بھی کرلی۔‘
فلم میں پس منظر کی موسیقی اور گیتوں میں بانسری اور ستار جیسے سازوں کے استعمال نے مناظر اور گیتوں کی دھنوں کے اثر کو دوبالا کر دیا۔ فلم کا مرکزی گیت ’بھور ہوئی گھرآؤ ماجی‘ اپنے اندر ایک گہری اداسی کی کیفیت لیے ہوئے ہے، جس کو سننے اور دیکھنے کے بعد کچھ لمحوں کے لیے پھر کسی اور چیز کو سننے اور دیکھنے کی تمنا نہیں ہوتی۔
آخری بات جاگو ہوا سویرا کے تناظرمیں دیکھا جائے تو پاکستان کمرشل سنیما سے بہت پہلے آرٹ سنیما کی بدولت عالمی سنیما کے حلقوں میں رسائی حاصل کر چکا تھا۔ اس سلسلے کو پیشہ ورانہ انداز میں جاری نہ رکھے جانے کی وجہ سے اس نوعیت کے سنیما کی پاکستان میں تقریباً موت ہوگئی۔
باکس آفس اب بھی ایسی فلموں کو قبول نہیں کرتا جس میں آرٹ سنیما کی جھلک آتی ہو۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ذہنی بلوغت اور شعوری بلندی کی جس سطح پر ہمارے فلم بین کو ہونا چاہیے، وہ وہاں تک نہیں آسکا۔ نتیجے میں ہوا یہ کہ فلم ساز نیچے اتر کر فلم بینوں کی ذہنی سطح تک آگئے، پھر ظاہر ہے کہ فلم بھی معیار کی سیڑھی سے نیچے اتر گئی۔
ہم اب بھی عالمی سنیما میں اپنی کھوئی ہوئی شناخت بحال کر سکتے ہیں، اگر اپنی بنیادوں پر کام کرلیں اور کمرشل سنیما کے راستے پر ہی ایک پگڈنڈی آرٹ سنیما کی بھی نکال لیں تو تخلیق اور ضرورت کا توازن قائم ہو جائے گا۔ اس کی ایک روشن مثال جاگو ہوا سویرا ہے، کیوں کہ اپنے مسائل اور احتجاج کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہو یا اپنا درست قومی تشخص حاصل کرنے کی خواہش، ہر صورت میں فلم کا میڈیم ہی اثر رکھتا ہے۔
جاگو ہوا سویرا کو دیکھتے ہوئے فیض صاحب کے چند اشعار آنکھوں کے سامنے تصویر بن کے ابھرتے ہیں۔ یہ شاعری جو انہوں نے ’ڈھاکا سے واپسی پر‘ کے عنوان سے لکھی تھی، یہ شاعری اور فلم دونوں طرف کے روشن خیال ذہنوں اور نرم دلوں میں پنپنے والی کیفیات کا اظہار ہے، اگر کوئی محسوس کرے تو:
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختمِ دردِ عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد