نقطہ نظر

ہندوستان کے ہندو نوجوانوں کو کس بات پر غصہ ہے؟

رام کمار ایک روایتی خاندان بنانے کا منصوبہ رکھتے ہیں مگر ان کی نسل کے دیگر افراد کو شاید یہ موقع نہ ملے۔

لیڈرشپ کیمپ میں موجود دونوں نوجوان نرم گفتار، ایوی ایٹر سن گلاسز اور چپل پہنے ہوئے تھے، اور متمول گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔

دائیں بازو کے ان ہندو کارکنوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان نوجوانوں کو پیٹا ہے جن پر ہندوؤں کے بنیادی عقائد کی خلاف ورزی کا شک تھا، اور انہوں نے بین المذاہب جوڑوں کو بھی دھمکایا ہے کیوں کہ انہیں خوف ہے کہ مسلمان ان کی خواتین چُرا رہے ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ضرورت پڑنے پر وہ اپنے عقائد کے لیے قتل کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔

23 سالہ رام کمار کا کہنا ہے کہ "اگر کوئی جان چلی بھی جائے تو ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔"

ہندوستان میں گرمیوں کا یہ موسم کافی اشتعال سے بھرپور رہا ہے۔ مشتعل ہجوموں کے ہاتھوں درجنوں افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ انتہاپسند ہندو دیگر افراد، جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، پر بھی حملے اور ان کا قتل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وائرل ہونے والی تازہ ترین ویڈیو میں ایک معمولی سے ٹریفک حادثے پر مشتعل ہونے والے زائرین کو ڈنڈوں کے ذریعے گاڑی تباہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ اس دوران پولیس تماشا دیکھتی رہی۔

اس کا زیادہ تر الزام ہندوستان کی حکمران ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور وزیرِ اعظم نریندرا مودی کو دیا جاتا ہے۔ نقادوں کا الزام ہے کہ انہوں نے ہندو انتہاپسندوں کے تشدد کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ مگر ہندوستان کے مشتعل لڑکوں کا یہ مسئلہ حالیہ حکومت کی جانب سے اپنائی گئی سخت گیر ہندو قوم پرستی سے بھی زیادہ گہرا ہے۔

پڑھیے: ہندوستان انتہاپسند ریاست بننے کے قریب؟

ہندوستان میں 60 کروڑ افراد 25 سال سے کم عمر کے ہیں اور ان کے پاس ٹیکنالوجی اور تعلیم تک پہلے سے کہیں زیادہ رسائی ہے۔ مگر پھر بھی لاکھوں کروڑوں ایسے ہیں جنہیں اچھی نوکریاں ملنے کی کم ہی امید ہے اور خواتین سے 3 کروڑ 70 لاکھ زائد مردوں کا 'بیچلر بم'، جو کہ لڑکوں کو ترجیح دینے اور لڑکی ہونے کی صورت میں اسقاطِ حمل کروانے کی کئی نسلوں پر مشتمل روایت کا ورثہ ہے، اب کئی دہائیوں تک ہندوستانی سماجی استحکام کے لیے خطرہ بنا رہے گا۔

مودی کی جماعت کے ایک رہنما وسوندھارا راجے نے سی این این نیوز 18 چینل کو بتایا کہ "لوگوں میں اس حوالے سے بے چینی ہے کہ وہ اچھی نوکریاں حاصل نہیں کر پا رہے۔ ایک پریشانی اور فکر ہے جو کہ عوام میں پھیل رہی ہے۔ یہ ان کے حالات کا ردِ عمل ہے۔"

ہندوستانی معیشت پر نظر رکھنے والی ایک تحقیقی فرم سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کے مطابق ہر ماہ مارکیٹ میں 10 لاکھ ملازمتوں کے نئے خواہشمند داخل ہوتے ہیں جن میں زیادہ تر کی انگلش اچھی نہیں ہوتی اور ان کے پاس مطلوبہ ہنر نہیں ہوتے، مگر گزشتہ سال حکومت نے صرف 18 لاکھ اضافی ملازمتیں پیدا کیں۔ مودی کہتے ہیں کہ گزشتہ سال نئی ملازمتوں کی تعداد 70 لاکھ کے قریب تھی۔

ٹھوس مواقع کے بغیر زیادہ تر نوجوان ہندوستان کی بڑھتی ہوئی دائیں بازو کی قوم پرست تنظیموں کی جانب راغب ہو رہے ہیں جہاں انہیں اپنے وجود کا کچھ مقصد دکھائی دیتا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ دائیں بازو کے ٹرولز کا ایک شخصی خاکہ تیار ہوگیا ہے: کی بورڈ جنگجو جن کے پاس کافی فارغ وقت ہوتا ہے، اپنے بیڈ رومز میں بیٹھ کر ہندوازم اور مودی کے خلاف ذرا سی بھی بات پر بھی مشتعل انداز میں ٹوئیٹس کرتے رہتے ہیں۔

ان گرمیوں میں کمار نے ہندو قوم پرست تنظیم ورلڈ ہندو کونسل کی جانب سے منعقد کردہ لیڈرشپ کیمپ میں شرکت کی جہاں انہوں نے گائے کی حفاظت، خواتین کی پاکدامنی کی حفاظت اور دیگر مذاہب کے لوگوں کی جانب سے ہندوؤں کا مذہب تبدیل کروانے سے روکنے کی تربیت حاصل کی۔ ان نوجوانوں نے شدید گرمی میں فوجی انداز میں مشقیں کیں، کنکریٹ کے مشترکہ کمروں میں رہے، اور دال چاول کھائے۔

کمار، ایک یونیورسٹی گریجوئیٹ جو کہ ٹینٹ کرائے پر دینے والی کمپنی چلاتے ہیں، اور قانون کے طالبِ علم 22 سالہ گورَو شرما، دونوں ہی تاج محل کے شہر آگرہ میں پلے بڑھے۔ ان کے نزدیک تاج محل ایک دلفریب سفید یادگار نہیں، بلکہ مغل حملہ آوروں کی نشانی ہے جنہوں نے ہندوستان کے ہندوؤں کو غلام بنایا تھا۔

کمار کہتے ہیں کہ لڑکپن میں وہ کافی شرمیلے تھے مگر ہندو قوم پرست تحریک میں شمولیت کے بعد "اب میرے اندر اعتماد کا ایک عجیب سا احساس پیدا ہو گیا ہے۔ گروپ نے ہمیں سکھایا ہے کہ کیا صحیح ہے اور ہمیں معاشرے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔"

وہ کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل تک وہ سڑکوں پر بین المذاہب جوڑوں کا پیچھا کر کے انہیں دھمکاتے تھے، اور ضروری اخلاقی پولیسنگ کرتے تھے کیوں کہ مسلمان لڑکے مبینہ طور پر "14 سال جتنی لڑکیوں کو بھی" ورغلاتے تھے۔ ہندو کارکن اسے "لَوجہاد" (love jihad) کہتے ہیں۔

پڑھیے: میں کلبھوشن یادیو کا حامی ہوں، مگر

کمار کہتے ہیں کہ وہ راتوں کو بھی سڑکوں پر گھومتے ہیں تاکہ گائے کے ان تاجروں کو ڈھونڈ سکیں جو کہ ذبیحے کے لیے غیر قانونی طور پر گائے اسمگل کر رہے ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں انہوں نے 5 دیگر سمیت گائے لے جا رہے ایک ٹرک ڈرائیور کو روکا اور مسلمان ٹرک ڈرائیور کو پیٹا جو کہ اپنی جان کی بھیک مانگ رہا تھا۔ کمار کہتے ہیں کہ اس کی جان صرف پولیس کی آمد کی وجہ سے چھوٹی۔

کمار کہتے ہیں، "میں غصے سے بھر گیا تھا۔ اگر میرے پاس پستول ہوتا تو میں نے اسے قتل کر دینا تھا۔"

شرما بتاتے ہیں کہ انہوں نے بھی اس طرح کے حملوں میں حصہ لیا ہے جس میں سے ایک میں انہوں نے گائے کی اسمگلنگ کے شبے میں ایک شخص کو چہرے پر مکا جڑ دیا تھا۔ لیکن تب سے ان کے بڑوں نے انہیں دکھایا ہے کہ کس طرح پٹنے والے شخص پر نشان چھوڑے بغیر بھی اسے مارا جا سکتا ہے۔

"ہمیں سکھایا گیا ہے کہ سر اور سینے پر نہیں مارنا ہے کیوں کہ یہ مہلک ہو سکتا ہے۔ ہم انہیں ایسے انداز میں پیٹتے ہیں کہ انہیں سنگین مگر خاموش زخم لگیں، مثلاً کمر اور ٹانگوں پر، تاکہ وہ ہلاک نہ ہوجائیں۔ ورنہ ہمارے خلاف مقدمہ بن سکتا ہے۔"

مگر جب سے ہندو پجاری یوگی ادتیاناتھ کی قیادت میں بی جے پی ان کی ریاست اتر پردیش میں اقتدار میں آئی ہے، تب سے انہیں حکام کی جانب سے کوئی خطرہ نہیں محسوس ہوتا۔

شرما کہتے ہیں، "اس سے پہلے ایک خوف تھا کہ حکومت ہمیں گرفتار کر سکتی ہے مگر اب یوگی کی حکومت میں ہمیں یہ خوف نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر لڑائی کے دوران کوئی اسمگلر قتل بھی ہوجائے تو ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔"

وہ بتاتے ہیں کہ "بی جے پی کے تمام رہنماؤں نے ہم سے کہا ہے کہ 'گائے کی حفاظت کے لیے جو بھی کرنا پڑے، کرو۔ فکر مت کرو۔ اگر کوئی مسئلہ ہوا تو ہم تمہارے لیے موجود ہیں۔'"

مودی نے کہا ہے کہ ریاستی حکومتوں کو گائے کے "خود ساختہ محافظوں" سے سختی سے نمٹنا چاہیے، اور یہ کہ حکومت قانون کی بالادستی کے لیے پرعزم ہے، مگر بی جے پی کے دیگر رہنماؤں نے مبینہ قاتلوں سے ملاقاتیں کر کے یا انہیں مبارکبادیں پیش کر کے عوام کو ایک الگ پیغام دیا ہے۔

ان نوجوانوں کے اندر مظلومیت کا ایک گہرا احساس ہے اور یہ کافی سارا وقت ہندو تفاخر کے گرد گھومنے والے واٹس ایپ گروپوں اور متبادل تاریخ پیش کرنے والی ویب سائٹس پر گزارتے ہیں جو کہ مغل اور برطانوی راج، جسے مودی غلامی کا 1200 سالہ دور کہتے ہیں، کے آنے قبل ہندوستان کی قدیم تہذیب کی شان و شوکت پر روشنی ڈالتی ہیں۔ نقادوں کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اس خلیج کو وسیع کر رہا ہے جو کہ 1947 میں ہندوستان کی خونی تقسیم، اور مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ملک کے قیام سے پہلے سے بھی موجود تھا۔

شرما کہتے ہیں کہ "ہمارے والدین نے ہمیں کبھی مسلمانوں کے بارے میں کچھ برا نہیں بتایا، مگر وہ اپنے مدرسوں میں سیکھتے ہیں کہ ہندو برے ہیں۔ اب ہم اپنی اگلی نسلوں کو بتائیں گے کہ مسلمان کس قدر برے ہیں۔"

شرما اور ان کے ساتھیوں کو اپنے اپنے کریئر کے لیے سخت مقابلے کا سامنا ہے کیوں کہ انہوں نے ایسے اسکولوں میں تعلیم حاصل کی ہے جہاں ہندی میں تعلیم دی جاتی ہے، اور اس لیے بھی کیوں کہ انہیں انگلش کے صرف چند جملے ہی آتے ہیں جو کہ ایک پرعزم ہندوستان کی زبان ہے۔ ان کے کئی ہم جماعت جدوجہد کر رہے ہیں، سبزیاں بیچ رہے ہیں یا معمولی مزدوری کر رہے ہیں۔ 30 ہم جماعتوں نے فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔

پڑھیے: یاد رکھیے، جناح کو ناپسند کرنے والے نہرو کو بھی پسند نہیں کرتے!

کمار ایک روایتی خاندان بنانے کا منصوبہ رکھتے ہیں، صرف بچے پیدا کرنے اور "آبادی میں اضافے" کے لیے۔ پھر وہ وضاحت کرتے ہیں، "ہندو آبادی میں۔"

ان کی نسل کے دیگر افراد کو شاید یہ موقع نہ ملے۔ آبادی پر تحقیق کرنے والے کرسٹوف گیلموٹو کا اندازہ ہے کہ صنفی عدم توازن کی وجہ سے ہندوستان کے 4 کروڑ اضافی مرد 2020 سے 2080 کے درمیان کنوارے رہیں گے۔

شرما کہتے ہیں، "دیکھیں، ایک محاورہ ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ مگر آپ کو عورت کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ انہیں پیچھے چھوڑ کر بھی زندگی میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔"

شرما کی محبت نے کسی اور سے شادی کر لی۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں آج تک اس بات کا افسوس ہے کہ انہوں نے اپنے والدین سے اس لڑکی سے شادی کی اجازت نہیں مانگی۔ مگر ان کے خاندان میں کسی نے آج تک محبت کی شادی نہیں کی تھی، ان کے گھرانے میں یہ ہمیشہ خاندان کی رضامندی سے طے پانے والا کام ہے۔

اب انہوں نے اپنے والدین کو مایوس کرتے ہوئے کنوارے رہنے اور خود کو ہندو قوم پرست مقصد کے لیے وقف کر دینے کا "حتمی فیصلہ" کر لیا ہے، بالکل اپنی پسندیدہ شخصیت مودی کی طرح جنہوں نے کم عمر میں شادی کے بعد ایک طویل عرصے سے بھارت ماتا کے لیے مہم چلانے کی خاطر غیر شادی شدہ اندازِ زندگی کو اپنا لیا ہے۔


انگلش میں پڑھیں

واشنگٹن پوسٹ کی تانیہ دت نے اس رپورٹ میں تعاون کیا۔

واشنگٹن پوسٹ کے ساتھ باہمی انتظام کے ذریعے ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں 2 ستمبر 2018 کو شائع ہوا۔

اینی گووِن
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔