پاکستان

تھر: غذائی قلت، وائرل انفیکشن سے مزید 7 بچے جاں بحق

حیدر آباد اور کراچی کے ہسپتالوں میں منتقل کیے گئے 800 سے زائد بچوں کا ریکارڈ ہمارے پاس نہیں، سرکاری عہدیدار
|

سندھ کے ضلع تھرپارکر میں غذائی قلت، وائرل انفیکشن اور پانی سے پیدا ہونے والی مختلف بیماریوں کے نتیجے میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 7 بچے جاں بحق ہوگئے۔

جاں بحق ہونے والے تمام بچوں کو طبی امداد کے لیے سول ہسپتال مٹھی لایا گیا تھا جہاں وہ دوران علاج دم توڑ گئے۔

محکمہ صحت کے عہدیداروں کے مطابق سول ہسپتال مٹھی میں جاں بحق ہونے والے بچوں کے بعد تھر میں رواں سال جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد 346 ہوگئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سول ہسپتال میں لائے گئے متاثرہ 90 سے زائد بچوں کی عمریں 5 برس سے کم ہیں۔

محکمہ صحت کے باوثوق ذرائع نے بتایا کہ ‘حیدر آباد اور کراچی کے ہسپتالوں کو ریفر کیے جانے والے 800 سے زائد بچوں کا ریکارڈ ہمارے پاس نہیں ہے’۔

یہ بھی پڑھیں: وائرل انفکیشن، غذائی قلت سے تھر میں مزید 8 بچے جاں بحق

متاثرہ خاندانوں نے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے علاقوں میں صحت سمیت دیگر بنیادی سہولیات موجود نہیں ہیں جبکہ مٹھی سمیت دیگر سرکاری ہسپتالوں میں ادویات اور دیگر سہولیات کا بھی فقدان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) تھر کی علاقے میں بارش کی کمی کے باعث پیدا ہونے والی صورت حال پر دی گئی رپورٹ کے نتیجے میں علاقے کو خشک سالی کا شکار قرار دیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود ریلیف کا کوئی کام نہیں کیا گیا۔

خیال رہے کہ تھر میں غذائی قلت اور وائرل انفیکشن کے باعث بچوں کی اموات ایک معمول بن چکی ہیں جہاں 26 اگست کو 8 بچے جاں بحق ہوئے تھے۔

قبل ازیں 21 اگست کو بھی مٹھی میں 4 نومولود دم توڑ گئے تھے۔

یاد رہے کہ سندھ حکومت کی موجودہ کابینہ نے اپنے پہلے اجلاس میں تھر اور عمر کوٹ کے کچھ حصے کو قحط زدہ علاقہ قرار دیا تھا۔

مزید پڑھیں:سندھ کابینہ کا پہلا اجلاس:کراچی کیلئے پانی کے نئے پلانٹ لگانے کا فیصلہ

بورڈ آف ریونیو کے رکن اقبال درانی نے کابینہ کو تھر میں خشک سالی کی صورت حال پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ خشک سالی کا عرصہ عام طور پر خشک موسم کی وجہ سے ہوتا ہے جو لمبے عرصے پر محیط ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے خطے میں فصلوں کو نقصان پہنچا اور لوگ بھی متاثر ہوئے۔

بورڈ آف ریونیو نے سفارش کی تھی کہ سرکاری واجبات ملتوی کیے جائیں اور سرکاری ڈیوٹیز کی معافی دی جائے اسی کے پیش نظر کابینہ میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہر ماہ ہر خاندان کے لیے 50 کلو گرام گندم تقسیم کی جائے گی۔

وزیراعلی سندھ نے بورڈ آف ریونیو کے رکن کو ہدایت کی تھی کہ وہ اچھروتھر، کاچو اور کوہستان سے بھی متعلقہ ڈپٹی کمشنر سے خشک سالی کی صورت حال کے بارے میں معلومات حاصل کریں تاکہ وہاں پر رہنے والے لوگوں کی مدد کی جا سکے۔