خیبرپختونخوا احتساب کمیشن پر 4 سال میں ایک ارب روپے سے زائد اخراجات
پشاور: خیبر پختونخوا کے احتساب کمیشن (کے پی ای سی) پر گزشتہ دور حکومت کے 4 سال میں صوبائی خزانے کے ایک ارب 56 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔
مذکورہ احتساب کمیشن پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صوبائی حکومت نے قائم کیا تھا، جسے اب ختم کرنے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق احتساب کمیشن کے خاتمے کا فیصلہ اس کے مستقل سربراہ کی عدم موجودگی، نگرانی اور عملی اقدامات کرنے والے شعبہ جات میں رسہ کشی اور قوانین میں ترامیم کے باعث اس کے اقدامات غیر موثر ہونے کی وجہ سے کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: خیرپختونخوا احتساب کمیشن کو تحلیل کرنے کا فیصلہ
خیبر پختونخوا میں معلومات کے حق کے قانون کے تحت حاصل کی گئی معلومات کے مطابق صوبائی مالیاتی شعبہ نے مئی 2018 تک کے پی ای سی کو ایک ارب 58 لاکھ روپے کی خطیر رقم فراہم کی تھی۔
مذکورہ کمیشن نے اپنے قیام کے ابتدائی 2 سالوں میں بھرپور طریقے سے کام کیا تاہم فروری 2016 میں ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل(ر) حمید خان کے استعفیٰ اور اس کے بعد پیش آنے والے معاملات کے باعث یہ بلکل غیر مؤثر ہوگیا، جبکہ صوبائی حکومت بھی اس کے نئے سربراہ کا تقرر کرنے میں ناکام رہی۔
اس سلسلے میں کمیشن کے ہی ایک عہدیدار کو ڈائریکٹوریٹ جنرل کا اضافی چارج دیا گیا لیکن ڈپارٹمنٹ نے ان کی تعنیاتی کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
مزید پڑھیں: 'کے پی میں احتساب کمیشن کا چیئرمین مقرر کیوں نہیں ہوسکا؟'
2014 میں پیش کیے جانے والے کے پی ای سی ایکٹ میں کم از کم 7 مرتبہ ترمیم کی گئی جبکہ 2017 کی کمیشن رپورٹ کے مطابق ایک سال میں 2 مرتبہ قانون تبدیل کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ایکٹ میں تبدیلی کرتے ہوئے ملزم کی گرفتاری کو عدالت کی اجازت سے مشروط کردیا گیا ، جس کے باعث وائٹ کالر جرائم کو گرفت میں لانا مشکل ہوگیا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا اہم ممبران کی تقرری کے لیے بنائی گئی سلیکشن کمیٹی قانونی تنازعات کے باعث کبھی کام کر ہی نہیں سکی جس کی وجہ سے کمیشن کی کارکردگی متاثر ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا کے ڈی جی احتساب کمیشن مستعفی
اس ضمن میں ڈان کو دستیاب دستاویز میں یہ بات سامنے آئی کہ کمیشن کی جانب سے پہلی گرفتاری کیے جانے کے محض ڈیڑھ ماہ بعد ہی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے ایکٹ میں ترمیم کردی گئی جس کے مطابق انسدادِ بدعنوانی اسٹیبلشمنٹ(اے ای سی) کو ختم کر کے اس کے ملازمین اور دیگر وسائل کو احتساب کمیشن میں ہی ضم کردیا گیا۔
بعد ازاں 6 ماہ بعد حکام کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے دوبارہ ایک ترمیم کے ذریعے اے سی ای کو علیحدہ ادارے کے طور پر بحال کردیا۔
دسمبر 2014 میں کے پی ای سی کے ڈائریکٹر جنرل نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سے ملاقات کی اور اے سی ای کو دوبارہ احتساب کمیشن کے ماتحت کرنے کی سفارش کی، لیکن اس کے بعد خیبر پختونخوا حکومت نے ایک آرڈیننس جاری کرتے ہوئے کے ای پی سی کے سربراہ کے اختیارات محدود کر دیئے۔
مزید پڑھیں: احتساب ایکٹ میں ترامیم واپس لینے کی ہدایت
آرڈیننس کے اجرا کے اگلے ہی روز لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید خان احتجاجاً مستعفی ہوگئے، بعد ازاں کافی تنقید کے بعد مئی 2016 میں آرڈیننس واپس لے لیا گیا۔
اس اقدام کے بعد سے حکومتی اراکین احتساب کمیشن کے مخالف ہوگئے اور اسے حکومتی معاملات میں مداخلت کا ذمہ دار ٹھہرایا جانے لگا اور کے پی ای سی کے قانون پر فوری طور پر نظرِ ثانی کرنے کےلیے ایک چارٹر آف ڈیمانڈ بھی پیش کیا گیا۔
دوسری جانب کے پی ای سی کے شعبہ نگرانی جسے کمیشن اور شعبہ کارروائی جسے ڈائریکٹوریٹ کہا جاتا ہے، کے درمیان بھی اختیارات کی جنگ شدت اختیار کر گئی۔
بعد ازاں وقت کے ساتھ ساتھ جب بیروکریٹک اور سیاسی ڈرامے سے دھند چھٹنے لگی تو کے پی ای سی کے اندرونی معاملات میں بھی بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔
یہ بھی پڑھیں: کے پی احتساب کمیشن کو ناکام بنانے کی کوششیں، عمران
اس سلسلے میں کمیشن کے قیام کے پہلے سال کانٹریکٹ بنیاد پر کی جانے والی بھرتیوں کے حوالے سے شعبہ برائے اندرونی جائزہ اور عوامی شکایات کی جانب سے مرتب کردہ 350 صفحات پر مبنی رپورٹ میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ کم از کم 10 کیسز میں قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی گئی۔