لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔
عمران خان نے ہم سے کہا ہے کہ کسی بھی طرح کے 'نتائج' سامنے آنے کے لیے ہم انہیں 3 مہینے کا وقت دیں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اس سے زیادہ کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے، شاید ایک سال تک، اس سے پہلے کہ پالیسی کی دنیا میں نتائج ظاہر ہونے لگیں۔
مگر نتائج سے کافی پہلے منصوبے اور ان کا نفاذ کا سلسلہ ہوتا ہے اور منصوبوں سے پہلے پالیسی کی سمت ہوتی ہے اور پالیسی سمت سے بھی ایک طویل عرصہ قبل اس بات کے اشارے واضح ہوجاتے ہیں کہ دربار میں کس بات پر غور و خوض کیا جا رہا ہے۔
یقینی طور پر نتائج کی توقع کرنا ابھی جلد بازی کے زمرے میں آئے گا اور جن زبردست تبدیلیوں کا وعدہ کیا گیا ہے، ان کے لیے ایک جامع منصوبے کی توقع کرنا بھی نہایت جلد باز ہوگا۔ مگر نئی ٹیم کی جانب سے پالیسی سمت کی توقع کرنا ابھی قبل از وقت نہیں ہے اور نہ ہی سامنے موجود اشاروں سے یہ غور کرنا قبل از وقت ہے کہ پالیسی کی سمت کیا ہوگی۔
تو نئے دربار میں کیا بحث ہو رہی ہے؟ ان کے عوامی اعلانات میں کون سے اشارے سامنے آ رہے ہیں؟ کون کس سے مل رہا ہے؟ مشورے کس سے مانگے جا رہے ہیں؟ وہ کیا سوالات پوچھ رہے ہیں؟ یہ سب چیزیں اور دیگر بہت سی چیزیں ان ابتدائی دنوں میں اہمیت کی حامل ہیں اور ان میں سے ہر چیز نئے دربار میں کھیلے جا رہے کھیل کی عکاسی کرتی ہے۔
مزید پڑھیے: عمران خان بھی وفاداروں کو نوازیں گے، یہ امید ہرگز نہیں تھی
تو یہ ابتدائی اشارے ہمیں کیا بتا رہے ہیں؟ یہ ہمیں بتا رہے ہیں کہ نئے دربار میں کچھ دراڑیں موجود ہیں۔ آئیں میں بتاتا ہوں۔
سب لوگ جانتے ہیں کہ ملک میں اس وقت بڑا اور بڑھتا ہوا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم زرِ مبادلہ کے ذخائر خرچ زیادہ کر رہے ہیں، مگر برآمدات، ترسیلاتِ زر اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی مد میں آنے والا زرِ مبادلہ ہمارے اخراجات کی نسبت کم ہے۔ تیزی سے بگڑتی ہوئی زرِ مبادلہ کی صورتحال نئی حکومت کے سامنے موجود چیلنج کا بنیادی حصہ ہے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر حکومت کو اپنی آمد پر زرِ مبادلہ کے ذخائر تقریباً خالی ملے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ اس کے بارے میں کیا کریں گے؟
سب سے سادہ جواب وہ کرنا ہے جو ہر پچھلی حکومت نے دفتر میں آنے پر کیا ہے: آئی ایم ایف کے پاس قرض کے لیے جانا اور پھر باقی 3 سال (جب وہ 3 سالوں کے لیے حکومت میں رہے) تک پروگرام کی شرائط پر عمل کرتے رہنا۔
جو چیز جو زیادہ تر لوگ اس آپشن سے نہیں سمجھ رہے، وہ یہ ہے کہ جب آپ آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں تو آپ اپنے محصولات اور اخراجات پر سے پورا کنٹرول کھو دیتے ہیں۔ پھر نت نئے ناموں سے ٹیکسوں کی بارش ہوجاتی ہے مثلاً 'کاربن سرچارج'۔ اس کے علاوہ اخراجات میں بھی زبردست کمی کی جاتی ہے۔
مزید پڑھیے: اس بار ’آئی ایم ایف‘ کے پاس گئے تو وہ اتنی آسانی سے نہیں مانے گا
اس کے بعد کرنسی کی قیمت میں تیزی سے کمی لائی جاتی ہے اور شرحِ سود میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ یہ تمام اقدامات ترقی روک دیتے ہیں، سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں، مہنگائی میں اضافہ کرتے ہیں اور عوام کے اخراجاتِ زندگی بڑھا دیتے ہیں۔ پالیسیوں کے اس مکمل پیکج کو معاشیات کی بورنگ زبان میں 'ڈیمانڈ کمپریشن' یا طلب کو سکیڑنا کہتے ہیں، جو کہ اس پالیسی سمت کا بنیادی حصہ ہے جسے میکرو اکنامک اسٹیبلیٹی یا پھر 'معاشی استحکام' کہا جاتا ہے۔
ڈیمانڈ کمپریشن وہ پکوان ہے جس کی خوشبو 'کفایت شعاری کی پالیسی' ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو آپ کو تب اپنانی پڑتی ہے جب آپ کی معیشت میں کافی مختلف طرح کے خسارے موجود ہوں۔ جب مالیاتی خسارہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح کی صورت میں ملکی معیشت کی شرحِ نمو سے زیادہ ہو یا پھر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ یعنی زرِ مبادلہ کی آمد و رفت کا حساب کتاب بھی اسی طرح زیادہ ہو، تو پھر آپ کو 'ڈیمانڈ کمپریشن' کے ذریعے معاشی استحکام لانا پڑتا ہے۔ وہ آسان پوائنٹس جو عمران خان اپنے سادگی کے اقدامات کے ذریعے اسکور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ تو ان کے لیے منتظر مستقبل کے سامنے کچھ بھی نہیں۔
وہ تمام حکومتیں جو پالیسیوں کے اس پیکج کا نفاذ کرتی ہیں، کچھ ہی وقت کے اندر غیر مقبول ہوجاتی ہیں۔ جب عوام پر بوجھ بڑھنے لگتا ہے تو وہ زیادہ عرصہ یہ سب کچھ برداشت نہیں کر پاتے اور یہی وہ نکتہ ہے جہاں پر عمران خان کی ٹیم میں دراڑوں کی ابتدائی علامات نظر آنے لگی ہیں۔
ایک دھڑا یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ اس میں سے کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جس چیز پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ باہر موجود لوٹی ہوئی دولت واپس لانا ہے، جس سے تمام خسارے بغیر کسی تکلیف کے پورے ہوجائیں گے۔ اپنے مؤقف کی حمایت میں اس دھڑے کے ارکان اپنے خیالات کو میڈیا پر پیش کررہے ہیں، ٹاک شوز میں آ رہے ہیں، باہر کتنی دولت موجود ہے اور اسے واپس لانا کتنا آسان ہے، اس کے بارے میں گمراہ کن اندازے پیش کر رہے ہیں اور اس کے لیے مختلف ممالک میں منظور ہونے والے نئے قوانین کی مثال دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'مغرب کے سامنے جھکنے کی ضرورت نہیں، ہماری معیشت میں اتنی قوت ہے کہ ہم اپنے پیروں پر خود کھڑے ہوسکتے ہیں اور اپنے سر بلند رکھ سکتے ہیں۔‘
یہ بہت ہی طاقتور بیانیہ ہے۔ کوئی آخر کیوں کسی کے آگے جھکنا چاہے گا؟ اپنے پیروں پر کھڑا اور اپنا سر بلند رکھنا کون نہیں چاہتا؟ مگر کیا وہاں پہنچنے کا کوئی شارٹ کٹ ہے؟ سوال یہ ہے کہ آیا کسی ایسی میکرو اکنامک پالیسی سمت، جس میں کچھ درد انگیز فیصلے موجود نہ ہوں، کے بغیر اس مقصد کا حصول ممکن ہے؟
جو چیز اہم اور نوٹ کرنے کی ہے وہ یہ کہ اکثر و بیشتر 'لوٹی ہوئی دولت واپس لاؤ' والے دھڑے کے الفاظ اور تصورات ہی وہ ہیں جو ہم عمران خان کے منہ سے سنتے ہیں۔ دوسرا دھڑا، جو کہ استحکام کے منصوبے کے خدوخال پر کام کر رہا ہے، اس کی قوت میں کئی گنا اضافہ اس وقت ہوگا جب اکنامک ایڈوائزری کونسل (ای سی سی) مل بیٹھے گی، کیونکہ اس بات کا کم ہی امکان ہے کہ وہ 'لوٹی ہوئی دولت واپس لانے' کی بحیثیتِ پالیسی سمت حمایت کریں گے۔
عمران خان کے گیس قیمتوں پر لیے گئے فیصلے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سخت فیصلے لینے سے گھبرانے والے نہیں ہیں۔ یا اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہی لوگ حاوی رہیں گے جو عمران خان کے کان بھر سکتے ہیں، یعنی کہ خان بغیر سوچے سمجھے فیصلہ کرنے پر مائل ہیں۔
مزید پڑھیے: خان صاحب ... خوشامدیوں سے ذرا بچ کے!
ہاں، ابھی نتائج کی توقع کرنا کافی قبل از وقت ہے مگر یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہمارے پاس ایک واضح پالیسی سمت ہو، فیصلہ سازی کا واضح اسٹائل موجود ہو اور اس بات کے اشارے سامنے نظر آ رہے ہوں کہ نیا دربار ملک کو کس سمت میں لے کر جانا چاہتا ہے۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 6 ستمبر 2018ء کو شائع ہوا۔
انگلش میں پڑھیں۔