پاکستان

سپریم کورٹ کا جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں 'جے آئی ٹی' بنانے کا حکم

35 ارب روپے کے فراڈ کا معاملہ ہے جس کی شفاف تحقیقات چاہتے ہیں، چیف جسٹس کے ریمارکس
|

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کی۔

چیف جسٹس نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئے اے) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) بشیر میمن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 'جب آپ کسی بڑے آدمی کو پکڑیں تو وہ بیمار ہو جاتا ہے اور جوان بچے آپ کے پکڑنے پر بیمار ہو جاتے ہیں۔'

ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ 'ہمارے پاس لاک اپ ہے جہاں تفتیش کرتے ہیں لیکن ملزم پرتعش زندگی کے عادی ہوتے ہیں۔'

انہوں نے کہا کہ انور مجید کے کراچی کے دفتر پر چھاپے میں دبئی کی کمپنیوں کا انکشاف ہوا ہے، ان کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں کئی ملین درہم موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فارن کرنسی اکاؤنٹس کے ذریعے انگلینڈ اور فرانس پیسے بھجوائے جا رہے ہیں اور جعلی بینک اکاونٹس کے ذریعے رقم منتقل کی جارہی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کیا آپ کے پاس فارن کرنسی سے متعلق کوئی ماہر بندہ ہے؟

مزید پڑھیں: جعلی بینک اکاؤنٹس کیس: حسین لوائی، طحٰہ رضا کی درخواستِ ضمانت مسترد

چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ 'آپ کو جدید تربیت یافتہ ٹیم چاہیے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں جے آئی ٹی بنانی چاہیے، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانا عدالت کی ضرورت ہے جس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔'

اس موقع پر انور مجید اور عبد الغنی مجید کے وکیل شاہد حامد نے جے آئی ٹی سے متعلق جمع کرائی گئی متفرق درخواست پر غور کی درخواست کی۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ انور مجید کی وزیر اعلیٰ کے ساتھ گفتگو بھی موجود ہے، کہا گیا کہ انور مجید وزیر اعلیٰ کے گھر پر رہ لیں، آپ باتیں رہنے دیں، ہم مقدمے کو پنجاب منتقل کر دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم جعلی اکاؤنٹس کی پہلے کی گئی تحقیقات کے بجائے جے آئی ٹی بنا کر اس سے ازسر نو تحقیقات کرا لیتے ہیں، 35 ارب روپے کے فراڈ کا معاملہ ہے جس کی شفاف تحقیقات چاہتے ہیں اور سچ سامنے لانا چاہتے ہیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ فی الحال کسی پر الزام نہیں لگا رہے، جے آئی ٹی ارکان کے نام بعد میں بتائے جائیں گے، عدالت رعایت دے رہی ہے اور ٹرائل کورٹ کی کارروائی روک دی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: ایف آئی اے نے آصف زرداری، فریال تالپور کو طلب کرلیا

وکیل شاہد حامد نے کیس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کی مخالفت کی۔

انہوں نے کہا کہ کیس میں سیاسی لوگوں کی شمولیت سے تاثر دیا جارہا ہے جیسے کرپشن کی گئی، ہر سماعت کے بعد میڈیا پر پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں، تحقیقاتی ادارے کو عدالت کیسے کہہ سکتی ہے کہ ایسے تحقیقات کریں اور ایسے نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیا کو کنٹرول کر لیتے ہیں، پر بتائیں جے آئی ٹی کیوں نہ بنائیں، ہمیں بتائیں کہ کورٹ کو جے آئی ٹی بنانے پر کیسے پابندی ہے؟ یہ کوئی چھوٹا موٹا مقدمہ نہیں ہے، کیا بینک اکاؤنٹس میں فرشتے پیسے ڈال کر چلے گئے؟ 35 ارب روپے کس کے تھے اس کا پتہ کریں گے، ایک خاتون نے آکر کہا میں نے 50 ہزار اکٹھے نہیں دیکھے، اربوں روپے اس کے اکاؤنٹ میں کیسے گئے؟

وکیل شاہد حامد نے کہا کہ تفتیشی ادارے قانون کے مطابق اختیارات استعمال کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ چھان پھٹک کی اس لیے ضرورت ہے اگر آپ نے کچھ نہیں کیا تو کلیئر ہوجائیں، 35 ارب روپے جمع کرا دیں تمام اکاؤنٹس کھول دیتے ہیں۔

وکیل شاہد حامد نے کہا کہ ایف آئی اے کے 35 ارب روپے کے اعداد و شمار جعلی ہیں، بحریہ ٹاؤن، زرداری گروپ اور اومنی گروپ کے درمیان رقوم منتقل ہوتی رہیں، اومنی گروپ نے 3 ارب روپے ڈالے، اتنے ہی نکالے اس میں کیا ہیرا پھیری ہے، سپریم کورٹ کسی معاملے میں جے آئی ٹی بناتی ہے تو مسائل ہوتے ہیں۔

چیف ثاقب نثار نے کہا کہ ہم جے آئی ٹی بنا رہے ہیں جو ہر 15 دن میں رپورٹ دے گی جب کہ سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو رینجرز کی سیکیورٹی دینے کا بھی حکم دیا۔

واضح رہے کہ ایف آئی اے کی جانب سے سپریم کورٹ میں جعلی بینک اکاونٹس کے خلاف تحقیقات کی تفصیلی رپورٹ جمع کرائی گئی تھی، جس میں مزید تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کی درخواست کی گئی تھی۔

ایف آئی اے کا عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ عبد الغنی مجید نے جعلی بینک اکاونٹس سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں سے تعلقات کا اعتراف کر لیا، جبکہ صدر سمٹ بینک حسین لوائی اور کارپوریٹ ہیڈ طلحہ رضا زیر حراست ہیں۔

عدالت کو بتایا گیا کہ اومنی گروپ کے مالکان انور مجید اور عبدالغنی مجید 28 اگست تک جوڈیشل کسٹڈی میں جسمانی ریمانڈ پر ہیں اور 8 ملزمان نے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر رکھی ہے۔

ایف آئی اے کی رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ 29 مشکوک بینک اکاونٹس سے 35 ارب روپے منتقل کیے گئے، مذکورہ مقدمے میں 10 اشتہاری ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے ہیں۔