روس و چین کی تھپکی: اردوان نے ‘جنگلی بھیڑیئے’ کو للکار دیا
ناکام بغاوت کے مبیّنہ کردار امریکی پادری اینڈریو برنسن کی گرفتاری سے شروع ہونے والا انقرہ-واشنگٹن تنازع ترکی کی معیشت کو بُری طرح متاثر کر رہا ہے۔ امریکا کی طرف سے ترک وزیرِ انصاف اور وزیرِ داخلہ کے اثاثے منجمد کیے جانے اور ترکی کی اسٹیل اور المونیم کی درآمدات پر اضافی ٹیرف کے نفاذ سے ترک کرنسی ڈالر کے مقابلے میں اب تک 42 فیصد تک قدر کھو چکی ہے۔
ترکی نے جوابی قدم اٹھاتے ہوئے امریکا سے کاروں، شراب اور تمباکو کی مصنوعات پر ٹیرف بڑھایا۔ ترکی کے جوابی اقدام کا امریکی معیشت پر اثر ابھی تک نمودار نہیں ہوا تاہم ترک معیشت کے بارے میں عالمی مالیاتی اداروں کے منفی جائزوں اور کریڈٹ ریٹنگ گرنے سے انقرہ شدید دباؤ کا شکار ہے۔
2017ء کے اگست کی نسبت اس سال اگست میں مہنگائی بڑھ کر 17.9 فیصد ہوچکی ہے۔ ان حالات میں ترک صدر پیچھے ہٹنے کے بجائے رویہ مزید سخت کر رہے ہیں۔ کرغزستان میں بزنس فورم سے خطاب کرتے ہوئے صدر اردوان نے ‘جنگلی بھیڑیئے’ کو للکارتے ہوئے ڈالر سے پاک تجارت کے عزائم کا اظہار کیا۔
ترک صدر کا کہنا تھا کہ ڈالر کی اجارہ داری کو بتدریج ختم کرنے کے لیے باہمی تجارت و سرمایہ کاری میں اپنی قومی کرنسیوں کو استعمال کرنا چاہیے۔ ترک صدر نے کہا کہ امریکا بھیڑیوں کی طرح برتاؤ کرتا ہے، ان پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے، ڈالر کا استعمال ہمیں کمزور کرتا ہے، ہم شکست نہیں مانیں گے اور بالآخر فتح ہماری ہوگی۔
پڑھیے: سلطان کی واپسی، عثمانی تھپڑ اب کس کا مقدر؟
ڈالر کے استعمال کو ترک کرکے اپنی قومی کرنسی یا کسی اور کرنسی میں تجارت کا تصور نہ نیا ہے اور نہ ترک صدر اس کی حمایت میں اکیلے ہیں۔ ڈالر کو ترک کرنے کی سوچ کا سبب خود امریکا اور اس کی پالیسیاں ہیں۔ امریکا اس وقت دنیا کے ہر 10 میں سے ایک ملک کو اقتصادی جنگ میں دھکیل چکا ہے۔ روس، ایران، وینزویلا، کیوبا، سوڈان، زمبابوے، برما، کانگو اور شمالی کوریا پر امریکا نے برسوں سے مالیاتی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ چین، پاکستان اور ترکی امریکی مالیاتی پابندیوں کے شکار تو نہیں لیکن امریکا نے انہیں سزا دینے کے لیے چند مالیاتی اقدامات اٹھا رکھے ہیں۔
درجنوں ملکوں کے ہزاروں شہری انفرادی طور پر امریکا کی پابندیوں کا شکار ہیں اور امریکا کے زیرِ اثر مالیاتی اداروں سے لین دین نہیں کرسکتے۔ یہ افراد اپنے ملکوں کی حکومتوں کے ساتھ قریبی روابط رکھتے ہیں۔ ان پر پابندیوں کے لیے بظاہر وجوہات بہت اچھی ہیں جیسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی، غیر قانونی جوہری تجارت، کرپشن، غیر شفاف مالیاتی اقدامات اور انٹیلیکچوئل پراپرٹی کی چوری۔
مگر گزشتہ چند ماہ کے اقدامات سے دنیا اب یہ محسوس کرنے لگی ہے کہ امریکی پابندیاں نیک نیتی پر مبنی نہیں۔ ان حالات میں دنیا میں یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ کوئی ایسا مالیاتی نظام تشکیل دیا جائے جو امریکا کے لمبے ہاتھوں کی پہنچ سے دور ہو۔
دنیا پر امریکی بالادستی میں فوجی طاقت کے علاوہ مالیاتی اداروں پر اس کا اثر و رسوخ اہم ہے۔ مالیاتی اداروں پر اثر و رسوخ کی وجہ ڈالر ہے جو دنیا بھر میں زرِمبادلہ کے طور پر سب سے زیادہ قابلِ قبول ہے۔ امریکی ڈالروں میں ہونے والی ٹرانزیکشن یا امریکی بینکوں کے استعمال سے تجارتی فریق امریکی قانون کے دائرہ اختیار میں آجاتے ہیں۔
امریکا جب کسی ملک یا فرد پر پابندیاں عائد کرتا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب اس ملک یا فرد کے ساتھ کاروبار کرنے والا ملک یا فرد دنیا کی نمبر ون معیشت کے ساتھ کاروبار کے دروازے خود پر بند کرلے گا۔ یہی وہ چھڑی ہے جسے امریکا دنیا پر حکمرانی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ کوئی بھی کاروباری ادارہ امریکی مارکیٹ اور مالیاتی نظام سے نکلنے کا متحمل نہیں ہوتا۔
دنیا اب یہ سمجھنے لگی ہے کہ امریکی بالادستی والے مالیاتی نظام میں وہ کسی طور پر معاشی خود انحصاری حاصل نہیں کرسکتے۔ اسی لیے چین اور روس نے نیا مالیاتی نظام سوئفٹ (سوسائٹی فار ورلڈ وائیڈ انٹربینک فنانشل ٹیلی کمیونیکیشن) متعارف کروایا ہے۔ روس اور چین اپنے تجارتی شراکت داروں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ڈالر کو ترک کرکے مقامی کرنسیاں استعمال کریں۔