نقطہ نظر

پاکستانی مارننگ شوز کے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے؟

’اشتہاری نرخ زیادہ ہونے کیلئے ضروری ہے کہ ریٹنگز زیادہ ہوں اور یہ سب ریٹنگز کیلئے ہی ہوتا ہے، ہمارے ہاتھ بندھےہوئے ہیں‘

پاکستانی مارننگ شوز کے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے

فاطمہ شاہین نیازی


ایک مارننگ شو میں شبِ معراج کے حوالے سے گفتگو جاری ہے۔ — طاہر جمال، وائٹ اسٹار

ایک دن مشہور بیوٹیشن بننے کی خواہشمند 12 خواتین ایک مارننگ شو کے سیٹ پر موجود ہیں۔

ان کے درمیان ہونے والے برائیڈل میک اپ مقابلے کی جج کے طور پر بلائی گئی میک اپ ایکسپرٹ کہتی ہیں: ’آج ہم وہ کریں گے جو کسی بیوٹیشن نے نہ پہلے سنا ہے نہ دیکھا ہے۔‘ پھر وہ ایک چمکدار سنہری بکسہ کھول کر اس میں سے ایک میک اپ اسٹک نکالتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’یہ نیگرو اسٹک ہے۔‘

ایک اور جج افریقی نسل کے مرد و خواتین کے لیے رائج مقامی لفظ استعمال کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’نیگرو حبشی ہوتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی حبشنوں کو دیکھا ہے؟ جلد ہی اس رنگ کے لوگ بھی آپ کے پاس میک اپ کے لیے آیا کریں گے اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایسی صورتحال میں کون سا میک اپ کیا جانا چاہیے۔‘

شو کی میزبان صنم جنگ اپنا ہاتھ آگے بڑھاتی ہیں اور میک اپ اسٹک کو اپنے ہاتھ کی پشت پر لگاتی ہیں۔ ان کی جلد کی ہلکی رنگ اور اسٹک کے گہرے رنگ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ وہ مقابلے کی شرکاء سے کہتی ہیں، ’میک اپ اس نیگرو ٹون کا ہی ہونا چاہیے، اس سے ہلکا نہیں۔ آپ کو آج چاکلیٹی دلہن تیار کرنی ہے۔‘

شرکاء، جو کراچی کے زیریں متوسط اور مزدور طبقے کے علاقوں مثلاً کورنگی، ملیر، نارتھ کراچی اور گلبرگ سے تعلق رکھتی ہیں، پریشان دکھائی دیتی ہیں۔ انہیں آج تک دلہن کا رنگ گورا کرنا ہی سکھایا گیا ہے، گہرا کرنا نہیں۔

14 مارچ 2018ء کو آن ایئر ہونے والے اس شو پر فوراً تنقید ہوئی۔ کم از کم 5 لوگوں نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کو اس کے خلاف 2015ء میں جاری کردہ میڈیا کے ضابطہ اخلاق کے تحت شکایت درج کروائی۔ مگر شو کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

21 اگست 2017ء کو صنم کا ہی ایک اور متنازع شو اسی طرح سزا سے بچ گیا۔ اس میں 4 سیلیبریٹیز اپنی ملازماؤں یا ماسیوں کے ساتھ آئی تھیں جنہیں 50 ہزار روپے انعام کے لیے صفائی اور کھانے پکانے کے مقابلے میں حصہ لینا تھا۔

صنم جنگ کا مارچ 2018ء کا ایک شو جس میں سیاہ چہروں کا مقابلہ ہوا — فوٹو بشکریہ فیس بک

کئی ناظرین لفظ 'ماسی' کے استعمال پر رنجیدہ ہوئے کیونکہ یہ لفظ پنجابی میں 'والدہ کی بہن' کے لیے استعمال ہوتا ہے مگر اب ملازماؤں کے لیے بالخصوص کراچی میں استعمال ہوتا ہے۔ دیگر افراد نے اس پر شدید تنقید کی کہ شو میں کس طرح ملازماؤں کو اپنی 'باجیوں' سے نچلے درجے کا دکھایا گیا۔

صنم کو اس شو کے مواد میں کچھ بھی پریشان کن نظر نہیں آتا۔ ایک انٹرویو میں وہ کہتی ہیں کہ ’اس اچھے کام کا کیا جو ہم کرنے کی کوشش کر رہے تھے؟ انعامی رقم ملازماؤں کے لیے کافی زیادہ تھی، ان کی ماہانہ تنخواہ اس کا ایک تہائی بھی نہیں ہوتی۔‘ یہ دلیل دیتے ہوئے وہ یہ باور کرانا چاہتی ہیں کہ پیسے سے ان کی اسکرین پر ہتکِ عزت کی تلافی ہوگئی ہے۔ بظاہر اس بات سے بے خبر کہ ان کے شو میں 'ماسیوں' اور ان کی 'باجیوں' کے درمیان کیا واضح فرق موجود تھا، وہ اپنے دفاع میں ایک اور دلیل پیش کرتی ہیں کہ ’ہم نے یہ تصور پیش کرنے کی کوشش کی کہ مالکان کو اپنے ملازمین کے ساتھ بہتر رویہ اختیار کرنا چاہیے۔‘

ان خیالات سے شاید اندازہ ہو کہ وہ کیوں اکثر اس طرح کے مقابلے اپنے ٹی وی شو میں کرواتی ہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے اپنے شو میں دلہن نمبر 1 نامی ایک مقابلہ کروایا جس میں میک اپ آرٹسٹس نے سب سے اچھی دلہن تیار کرنے پر ڈھائی لاکھ روپے کے انعام کے لیے مقابلہ کیا تھا۔

دیگر مارننگ شو میزبانوں نے بھی یہی کچھ کیا ہے۔ ایک مرتبہ ندا یاسر نے ایک شو کیا جس میں پست قد لڑکیوں کو اونچا نظر آنے کے لیے ٹپس دی گئی تھیں۔ ساحر لودھی نے 12 مارچ 2018ء کو اپنے شو میں نوجوان لڑکیوں کو مزید گورا نظر آنا سکھایا۔

اس کے بعد ساحر نے حاضرین میں سے 3 کے چہروں پر آلو کا پیسٹ ملا۔ انہوں نے کہا کہ ’آلو کے اندر بلیچ کرنے کی خصوصیات موجود ہوتی ہیں جس سے آپ گورے نظر آئیں گے۔‘ اس کے بعد انہوں نے اسٹیج پر ایک اسکن اسپیشلسٹ کو بلایا تاکہ گوری رنگت پر تجویز حاصل کی جاسکے۔ ان اسپیشلسٹ نے کہا کہ ’اگر آپ کے اندر ہیموگلوبن کم ہے تو آپ کا چہرہ گورا نہیں ہوگا‘ اور یوں انہوں نے ناظرین کو اپنے خون کے ٹیسٹ کروانے کا مشورہ دے دیا۔

یہ ٹوٹکے وہ واحد چیز نہیں جو ساحر (اور دیگر کئی میزبان) اپنے مارننگ شوز میں بیچتے ہیں۔ بلکہ وہ واقعی ان حدود کو پار کرچکے ہیں کہ ٹی وی شو میں کیا دکھایا جاسکتا ہے۔

نتائج ہمیشہ ان کے لیے اچھے نہیں رہے۔ جنوری 2018ء میں ایک شہری نے سندھ ہائی کورٹ میں ان کے شو پر پابندی کے لیے درخواست دائر کی کیونکہ اس میں 12 سال سے کم عمر لڑکیوں کو ہندوستانی آئٹم گانوں پر ناچتا دکھایا گیا تھا۔ 15 مئی 2017ء کو پیمرا کو ان کی فیشن ماڈلز کے ساتھ رقص کی لائیو ویڈیو کلپ 'ناشائستہ اور قابلِ اعتراض' معلوم ہوئی اور ان کے شو پر 10 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کر دیا گیا۔

ساحر لودھی حاضرین میں سے ایک کو ماسک لگا رہے ہیں — فوٹو بشکریہ فیس بک

کچھ سال پہلے کی بات ہے جب ایک مولوی اور ایک ماہرِ نفسیات ندا یاسر کے شو پر مافوق الفطرت عوامل کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ جس سوال پر وہ بحث کر رہے تھے وہ کافی عام سا سوال تھا: آیا جنات حقیقت میں ہیں یا صرف یہ انسان کا تخیل ہے؟ دونوں طرف سے تیز طرار بحث جاری تھی کہ اچانک سیٹ پر لائٹس پھٹ گئیں اور کانچ کے ٹکڑے ندا اور مہمانوں پر گرے۔ سیٹ پر موجود حاضرین نے خوف کے عالم میں چلانا شروع کردیا اور شو کو روکنا پڑا۔

مارچ 2012ء میں ایسے ہی ایک شو میں جینز اور سرخ اسپورٹس جیکٹ پہنا ہوا نوجوان شو میں ایسے انداز میں آیا کہ حاضرین میں سے کچھ کو پریشانی کے عالم میں اپنی سیٹیں چھوڑنی پڑیں۔ بظاہر اس شخص پر آسیب کا سایہ تھا۔ اس کا چہرہ کیمرے میں کبھی بھی نہیں دکھایا گیا مگر اسے سیاہ سوٹ اور ٹائی میں ملبوس مہمان سے الجھتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔ کچھ ہی لمحات بعد نوجوان نے ہار مان لی اور بے ہوشی کے عالم میں فرش پر گر گیا۔ بظاہر جن نے اسے چھوڑ دیا تھا۔

اسی سال ایک دوسرے چینل کے دوسرے شو میں لہراتی ہوئی داڑھی والا ایک بوڑھا آدمی سیاہ برقعے میں ملبوس ایک عورت سے جن نکال رہا تھا۔ وہ شخص اپنی انگلی اور انگوٹھے کو ایسے مسلتا رہا جیسے کہ عورت کے اندر موجود جن پر تشدد کر رہا ہو، اور ساتھ ساتھ عورت سے آیات و دعاؤں وغیرہ کو دہرانے کا بھی کہتا رہا۔ اس پورے منظر کے اختتام پر عورت نے چلانا شروع کر دیا۔

یہ شاید مارننگ شوز میں ہونے والی عجیب ترین چیزوں میں سے ایک ہیں۔ مگر کچھ دیگر شوز نے بھی غیر متوقع، مگر یقینی طور پر ان سے کم عجیب موڑ لیے ہیں، مثلاً مہمانوں کا آپس میں لڑ پڑنا۔ میزبانوں کو بھی اکثر غیر متوقع حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایک مرتبہ ندا یاسر سیٹ پر پھسل گئیں جب وہ اپنے حمل کے آخری ہفتوں میں تھیں اور واپس اسکرین پر آنے میں صرف 10 سیکنڈ رہ گئے تھے۔ درد کے تمام آثار کو چھپاتے ہوئے اسکرین پر وہ کچھ ہی لمحات میں اسکرین پر تھیں۔

وہ ایک انٹرویو میں کہتی ہیں، ’شو کی میزبانی کوئی آسان کام نہیں۔ کبھی کبھی مہمان ایسی چیزیں کہہ دیتے ہیں جو انہیں نہیں کہنی چاہیئں۔ ایسی صورتحال میں ناظرین کی توجہ ہٹا دیتی ہوں۔‘ ٹی وی ڈراموں میں اداکاری کے تجربے سے بھی انہیں اس طرح کے حالات سے نمٹنے میں مدد ملتی ہوگی۔

ندا کہتی ہیں کہ ’وہ دیکھنے والوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے حوالے سے بھی محتاط رہتی ہیں۔ اگر آپ کی زبان پھسل جائے تو کسی کو دکھ پہنچ سکتا ہے‘ اور یہ نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ یہاں لوگ معمولی سی غلط فہمی پر قتل کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔‘

مگر پھر بھی ندا اسکرین پر کافی سنگین غلطیاں کرتی رہی ہیں۔

ندا یاسر کے مارننگ شو کا دیدہ زیب سیٹ — طاہر جمال، وائٹ اسٹار

مئی 2017ء کی ایک قسط میں وہ اس وقت ہنس پڑیں جب شاہد آفریدی یاد کر رہے تھے کہ کس طرح انہوں نے غصے میں آکر ٹی وی توڑ دیا تھا کیونکہ ان کی اہلیہ بچوں کا خیال رکھنے کے بجائے ہندوستانی ڈرامے دیکھ رہی تھیں۔ اس پروگرام پر عوام کی جانب سے بڑے پیمانے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا کیونکہ اس میں گھریلو تشدد کو فروغ دیا گیا تھا۔ جب ندا سے اس حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’جب کوئی مہمان میرے شو میں آئے اور کوئی مزاحیہ بات کرے، تو ہنسنا میری نوکری کا حصہ ہے۔ سنجیدہ رہنا تو مغرور محسوس ہوگا۔‘

اندر کی خبر رکھنے والے کہتے ہیں کہ اس طرح کے مسائل اس وجہ سے ہوتے ہیں کہ میزبان، پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کی جانب سے تحریری ہدایات پر عمل نہیں کرتے۔ ندا ایک طرح سے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہتی ہیں ’ہم ایک ٹیم کی طرح ہر شو کا موضوع طے کرتے ہیں مگر حتمی فیصلہ میرا ہوتا ہے۔ اگر مجھے کوئی چیز دلچسپ محسوس نہ ہو تو میں اسے نہ کہہ دیتی ہوں۔‘

مواد پر اس طرح کے کنٹرول کی وجہ سے اکثر و بیشتر مارننگ شوز مضحکہ خیز اور بے وقوفانہ دکھائی دیتے ہیں۔ ندا اس عدم سنجیدگی کی توجیہہ یہ کہہ کر پیش کرتی ہیں کہ ان کے ناظرین کی سب سے بڑی تعداد گھروں میں موجود غیر تعلیم یافتہ خواتین ہوتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جب ان کے بچے اسکول چلے جائیں اور ان کے شوہر دفاتر چلے جائیں، تو پیچھے انہیں صرف تفریح کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

صنم بھی اس سے اتفاق کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں نے مارننگ شوز کرنے شروع کیے تو میں کافی سارے موضوعات کو منع کردیا کرتی تھی۔ مثال کے طور پر مجھے شوز کو بہت زیادہ شادیوں تک محدود کر دینے سے مسئلہ تھا۔ پھر میں نے عوام کا جائزہ لیا اور مجھے سمجھ آئی کہ جو چیز مجھے پسند نہ آرہی ہو، وہ شاید کہیں اور کسی اور کو کچھ فائدہ پہنچا رہی ہو۔‘

وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ’مارننگ شوز کے زیادہ تر ناظرین کے پاس مہنگے ڈاکٹروں اور بیوٹیشنز کے پاس جانے کے لیے پیسے نہیں ہوتے۔ اس طرح کے شوز دیکھنے سے انہیں اپنے گھر کے آرام سے نکلے بغیر اور پیسے خرچ کیے بغیر ماہرین سے اچھی آراء مل جاتی ہیں۔‘

صنم جنگ اپنے شو میں ہونے والے مقابلے ماسی نمبر 1 جیتنے والی خاتون کے ساتھ — بشکریہ فیس بک

3 بجنے والے ہیں مگر کراچی کے علاقے لانڈھی میں ایک گھر کی خواتین اب بھی جاگ رہی ہیں۔ شکیلہ، ان کی بیٹی انعم، ان کی نند شاکرہ، اور ان کی بھانجی عریشہ سونے سے پہلے ایک اہم چیز کا فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں: کل ندا یاسر کے شو میں کیا پہن کر جایا جائے؟ وہ مختلف جوڑوں کے فوائد و نقصانات پر زبردست بحث کر رہی ہیں اور بالآخر کچھ رسمی جوڑوں کا انتخاب کر لیتی ہیں۔

انہوں نے کئی ہفتوں تک انتظار کیا ہے اور ٹی وی چینل کو لاتعداد کالز کی ہیں تاکہ وہ بھی شو میں شریک ہوسکیں۔ اب بلاوا موصول ہونے پر وہ انتہائی جذباتی اور بے تاب ہیں۔ شکیلہ کو یقین نہیں آ رہا کہ وہ اپنی پسندیدہ میزبان سے چند ہی گھنٹوں میں ملنے والی ہیں۔

سورج نکلنے سے ایک گھنٹہ قبل ان کے شوہر انہیں اٹھا دیتے ہیں۔ وہ نماز پڑھتی ہیں، قرآن کی تلاوت کرتی ہیں اور اپنے بڑے خاندان کے لیے انڈے، پراٹھے اور چائے بنانے لگتی ہیں۔ پھر وہ تیزی سے ناشتہ لگاتی ہیں اور اپنے شوہر سے یہ یقینی بنانے کی درخواست کرتی ہیں کہ سب لوگ اچھی طرح سے کھائیں۔ پھر وہ اور ان کی بیٹی شو تک لے جانے کے لیے چینل کی انتظام کردہ بس پکڑتی ہیں۔ ان کے ساتھ شاکرہ، عریشہ اور پڑوس کی دیگر خواتین بھی ہیں۔

سائٹ ایریا میں شو کے سیٹ پر داخل ہوتے ہی تازہ تازہ پرنٹ شدہ پینافلیکس کی بو ان کے نتھنوں سے ٹکراتی ہے۔ سیٹ اتنا بڑا اور پوش نہیں ہے جتنا کہ ٹی وی پر نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس یہ تو صرف 30 بائے 30 فٹ پر مشتمل ہے۔

40 لائٹس نے اس پورے سیٹ کو منور کر رکھا ہے۔ دیواروں پر اسلامی تعمیراتی ڈیزائنز کا تھری ڈی پرنٹ لگا ہوا ہے۔ فیری لائٹس، سفید شفون کے پردے اور سفید گلابوں والے گلدان بھی جگہ کی سجاوٹ کے لیے رکھے گئے ہیں۔

انہیں مکمل طور پر خواتین حاضرین میں بیٹھنے کے لیے نشستیں مل جاتی ہیں۔ ایک چھوٹا سا خالی حصہ انہیں اسٹیج سے جدا کرتا ہے جہاں سفید لیدر کے صوفے مہمانوں اور میزبان کے لیے رکھے گئے ہیں۔ خواتین نے اپنے سر دوپٹوں سے شبِ معراج کے احترام میں ڈھانپ رکھے ہیں جو کہ ویسے تو 12 گھنٹے بعد ہے مگر اسے آج کے شو میں زیرِ بحث لایا جانا ہے۔

ندا آڑوو کے رنگ کا شفون ڈریس پہنے سیٹ پر آتی ہیں جو فرش پر گھیسٹ رہا ہے۔ حاضرین انہیں حیرانی سے سر سے پیر تک ایسے دیکھتے ہیں جیسے کہ وہ کوئی دلہن ہوں۔ اپنے دوپٹے کا کونا وہ ایسے پکڑتی ہیں کہ وہ ان کے سر سے گر نا جائے۔ پھر وہ کوکنگ اسٹیشن کی جانب بڑھ جاتی ہیں۔ تمام 40 خواتین کی نظریں ان کا پیچھا کر رہی ہیں۔ کچھ کی آنکھیں تو فرطِ جذبات سے بھر آئی ہیں جنہیں وہ دوپٹے سے صاف کر رہی ہیں۔ شو شروع ہونے میں ایک منٹ سے بھی کم رہ گیا ہے اور ندا مڑتی ہیں، حاضرین سے آنکھیں ملاتی ہیں، مسکراتی ہیں، اور ان کی جانب ہاتھ ہلاتی ہیں۔ وہ ایک عمر رسیدہ خاتون کو ’اسلام و علیکم‘ کہتی ہیں جن کا ردِعمل تشکر بھرا ہوتا ہے کیونکہ انہیں ایک سلیبریٹی نے توجہ دی۔

شاکرہ شکیلہ کے گھر پر انتظار کر رہی ہیں — طاہر جمال، وائٹ اسٹار

شو حاضرین کی توقعات سے زیادہ طویل تھا۔ جب ٹرانسمیشن پوری ہوئی تو خواتین واپس ان بسوں میں سوار ہوجاتی ہیں جو نکلنے کے لیے شو کے پروڈیوسرز کے سگنل کا انتظار کر رہی ہیں۔ یہ انتظار شاکرہ کو بے چین کردیتا ہے۔ ان کے ساتھ موجود ان کی بیٹی عریشہ کا 2 بجے میٹرک کا سالانہ امتحان ہے جب کہ ابھی 12 بج کر 10 منٹ ہوچکے ہیں۔ ان کے شوہر جو ایک پولیس انسپکٹر ہیں، ’انہیں معلوم بھی نہیں کہ آج عریشہ کا امتحان ہے۔‘

انہیں پہلے گھر جانا ہے مگر لانڈھی سائٹ ایریا سے 30 کلومیٹر مشرق میں ہے اور کم از کم بھی ایک گھنٹے کا سفر ہے۔ وہ ٹیکسی لے سکتی تھیں مگر ان کی برادری میں خواتین عبایا پہنے بغیر ٹیکسی میں سفر نہیں کر سکتیں اور ان کا عبایا گھر پر رکھا ہے۔

میں جیسے ہی انہیں اپنی گاڑی میں چھوڑنے کی پیشکش کرتی ہوں تو شاکرہ اور عریشہ فوراً مان جاتی ہیں۔ جب ان کی منزل آتی ہے، تو وہ گاڑی سے اترتی ہیں اور سرخ ٹی شرٹ اور نیلی جینز پہنے ایک درمیانی عمر کے شخص کو سلام کرتی ہیں۔ وہ شکیلہ کے شوہر ہیں۔ شاکرہ گلابی رنگ کے ایک گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’یہ شکیلہ کا گھر ہے۔‘ ان کا اپنا گھر جو سفید رنگ کا ہے، اس کے ساتھ ہی ہے مگر وہ مجھے اندر نہیں بلاتیں کیونکہ ’اگر میرے سسر کو پتہ چل گیا کہ ہم شو میں گئے تھے تو وہ بہت غصہ ہوں گے۔" وہ فوراً اندر جاتی ہیں تاکہ بیٹی کو امتحان کے لیے تیار کروا سکیں۔

اس علاقے کی گلیاں اس راہداری سے بھی تنگ ہیں جو ندا کے شو کے سیٹ تک جاتی ہے۔ گھر اتنے چھوٹے ہیں کہ ان میں سے 3 شو کے میک اپ روم کے ہی اندر سما جائیں۔ گلی کے کنارے پر کھڑے ہو کر جو نظر آتا ہے وہ صرف ایک ہی سائز اور شکل کے درجنوں گھر، جو ایک دوسرے کے ساتھ رکھے شپنگ کنٹینروں کی طرح نظر آتے ہیں۔

شکیلہ کا گھر روشن اور اندر سے آرٹسٹ انداز میں سجایا گیا ہے۔ چھوٹا سا ڈرائنگ روم تیز بینگنی رنگ میں رنگا ہوا ہے جبکہ زمین پر سرخ نقوش والی ایک خاکستری رنگ کی چادر بچھی ہوئی ہے۔ سنہرے ریشمی کپڑے سے ڈھکے ہوئے صوفوں کے ساتھ ایک ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر رکھا ہوا ہے۔ دیوار پر ایک اے سی بھی لگا ہوا ہے مگر لگتا نہیں کہ یہ چلتا ہے۔

جلد ہی شکیلہ اور انعم بھی شو کے حاضرین میں سے دو دیگر خواتین کے ساتھ آ پہنچتی ہیں جو کہ اسی علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک ماں بیٹی ہیں۔ دونوں خواتین اور ان کی بیٹیاں فرش پر بیٹھ جاتی ہیں بھلے ہی صوفوں پر کافی جگہ موجود ہے۔ شکیلہ پوچھتی ہیں، ’آپ نے دیکھا ندا اصل میں کتنی خوبصورت نظر آتی ہیں؟‘

انعم کو ندا اور ساحر بہت پسند ہیں۔ وہ ان کے شوز لائیو تو نہیں دیکھ سکتی کیونکہ وہ اس وقت کالج میں ہوتی ہے، مگر وہ ہر روز رات کو آن لائن دیکھ لیتی ہے۔

حاضرین کی بڑی تعداد خواتین پر مشتمل ہوتی ہے — طاہر جمال، وائٹ اسٹار

شکیلہ تو مارننگ شوز کی اور بھی دلدادہ ہیں۔ بھلے ہی وہ یہ پروگرام ٹی وی پر دیکھ چکی ہوتی ہیں مگر اپنے شوہر کے ساتھ دوبارہ آن لائن دیکھتی ہیں۔ ’میں نہیں جانتی کہ کمپیوٹر کیسے استعمال کیا جاتا ہے مگر انعم اس میں میری مدد کرتی ہے۔‘

اس چھوٹی سی محفل میں موجود دوسری خاتون کئی مارننگ شوز میں شرکت کرچکی ہیں، صنم جنگ کے اس شو میں بھی جس میں گہری رنگت کی خواتین کے لیے میک اپ کا مقابلہ ہوا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’ارے وہ تو زبردست شو تھا۔ گورے لوگوں پر میک اپ کرنا تو آسان ہے۔ میک اپ کا اصل ہنر تو یہ ہے کہ گہری رنگت کی خواتین کو بھی خوبصورت بنا دیا جائے۔’

انہیں اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ یہ شو پیمرا کے معیار پر پورے اترتے ہیں یا نہیں اور اگر ان پر پابندی بھی لگا دی گئی، تب بھی وہ ان کی پرانی قسطیں دیکھتی رہیں گی۔ شکیلہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میں توانا رہنے کے لیے یہ تمام شوز دوبارہ آن لائن دیکھوں گی۔‘

ایک نوجوان لڑکی ایک دفعہ مشہور مارننگ شو میزبان شائستہ لودھی سے بات کرنا چاہتی تھی مگر شائستہ لودھی نے اس کی کال وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ مایوس ہوچکی لڑکی نے خودکشی کرنے کی کوشش کی اور پھر اسے ہسپتال لے جانا پڑا۔

حیرت کے جذبات کے ساتھ شائستہ کراچی کے ایک پوش بیوٹی کلینک میں پوری کہانی سناتی ہیں۔ یہاں وہ ڈاکٹر کے طور پر کام کرتی ہیں۔ شام 7 بجے اپنے آرام دہ آفس میں وہ کچھ تھکی ہوئی نظر آتی ہیں۔ مگر لیموں کے رنگ کا لان کُرتا اور نیلی جینز پہنے ہوئے وہ ابھی بھی اتنی ہی خوبصورت نظر آ رہی ہیں جتنی کہ وہ ٹی وی پر نظر آتی ہیں۔ ان کے بال نفاست سے بلو ڈرائی کیے گئے ہیں۔ اوپری جانب سیدھے، گھنے اور نیچے کی جانب گھنگریالے، اور ان کی گلابی جلد چمک رہی ہے۔ سر کی ہر حرکت کے ساتھ ان کے گھنگریالے بال اچھلتے ہیں۔

شائستہ اپنی مقبولیت کے عروج پر تھیں جب ایک غلط قدم نے ان کے کیریئر کو عارضی طور پر ہی سہی مگر الٹ کر رکھ دیا تھا۔ 15 مئی 2014ء کو انہوں نے اداکارہ وینا ملک اور دبئی کے بزنس مین اسد بشیر خٹک کی اسکرین پر شاندار شادی کی میزبانی کی۔ یہ جشن اس وقت متنازع بن گیا جب جوڑے، میزبان اور شادی کے مہمانوں نے مایہ ناز قوال امجد صابری کے گائے گئے مذہبی گیت پر اسٹیج پر رقص کیا۔

کئی مذہبی علماء نے اس عمل کو گستاخانہ قرار دیا۔ تقریباً 6 ہزار لوگوں نے پیمرا کو شکایت درج کروائیں۔ قانون توہینِ مذہب کے تحت شائستہ، وینا اور شو چلانے والے ٹی وی چینل کے مالک کے خلاف پولیس مقدمہ درج کرلیا گیا۔

شائستہ کو موت کی دھمکیاں ملنے کے بعد ملک چھوڑنا پڑا۔ وہ 2016ء میں واپس آئیں اور انہیں اپنا ٹی وی کیریئر واپس شروع کرنے سے قبل عوام سے معافی مانگنی پڑی۔ وہ سرگوشی کے انداز میں کہتی ہیں، ’ہم پر اپنی گفتگو کے حوالے سے محتاط رہنے کے لیے بہت دباؤ ہوتا ہے۔ اب میں بہت خیال کرنے لگی ہوں۔‘

شائستہ یہ بھی جانتی ہیں کہ معاشرے کے پڑھے لکھے اور صاحبِ ثروت افراد مارننگ شوز اور ان کے میزبانوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ایک بار نامور ٹی وی شو میزبان اور ناول نگار مستنصر حسین تارڑ ان کے شو میں آئے تھے، اور شائستہ کو یاد ہے کہ جب انہوں نے کسی ایسی بات پر گفتگو شروع کی تھی جو انہوں نے پڑھی تھی، تو مستنصر نے ان سے کہا تھا، ’اچھا، تو آپ بھی پڑھتی ہیں؟‘

شائستہ لودھی کے پروگرام میں آن اسکرین شادی — بشکریہ فیس بک

وہ کہتی ہیں کہ ’میں اس وقت بہت زیادہ شرمندہ ہوگئی تھی۔ ہم نے اپنے مواد کا معیار اتنا گرا دیا ہے کہ لوگوں کو لگتا ہے ہمیں کچھ نہیں آتا۔‘

لیکن اس احساس کے باوجود وہ اپنے مارننگ شوز کو ہلکا ترین رکھنے سے رُک نہیں پاتیں۔ وہ سمجھاتی ہیں کہ ’مجھے چیزوں کو خواتینِ خانہ کے لیے قابلِ ہضم رکھنا ہوتا ہے۔‘

یہ وجہ ہے کہ شائستہ ان شوز کے بارے میں بالکل بھی معذرت خواہ نہیں جن میں رنگ گورا کرنے کو فروغ دیا جاتا ہے۔ یہ 'پبلک ڈیمانڈ' ہے۔ وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ’زیادہ تر لوگ جو میرے کلینک پر آتے ہیں، اپنی رنگت گوری کرنا چاہتے ہیں۔ مائیں اپنی عنقریب شادی کے بندھن میں بندھنے والی بیٹیوں کو لے کر آتی ہیں تاکہ انہیں رنگ گورا کرنے والے انجکشن لگائے جائیں۔‘ وہ اس جانب توجہ دلاتی ہیں کہ عمومی طور پر ان کے شو کم آمدن والے علاقوں میں دیکھے جاتے ہیں جو لوگ وائٹننگ انجکشن کا خرچہ برداشت نہیں کر پاتے، چنانچہ انہیں مشورے صرف مارننگ شوز سے ہی مل پاتے ہیں۔

مگر وہ یہ تسلیم کرتی ہیں کہ ان پر جتنے زیادہ ہوسکے اتنے ناظرین کو اپنی جانب کھینچنے کا دباؤ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے کئی مرتبہ وہ ایسی چیزیں بھی شو میں پیش کرتی ہیں جن کے بارے میں وہ جانتی ہیں کہ وہ غلط ہیں۔ ’مگر میں اتنی طاقتور نہیں کہ اپنے مالکان کے سامنے جاؤں اور کہوں کہ میں یہ نہیں کروں گی۔‘

انہیں جو چیز یہ سب کرنے پر مجبور کرتی ہے وہ ریٹنگز ہیں۔ شائستہ کہتی ہیں کہ ’ایک بار میں نے ماؤں سے متعلق ایک انگریزی نظم کا ترجمہ کیا تھا تو ریٹنگز گر گئی تھیں۔‘

مارننگ شوز براہِ راست ناظرین سے نہیں کماتے بلکہ یہ مختلف برانڈز کو اشتہارات کا وقفہ فروخت کرکے کماتے ہیں۔ صنم کے شو کے ایگزیکٹیو پروڈیوسر ریحان احمد کہتے ہیں کہ ’اشتہاری نرخ زیادہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ریٹنگز زیادہ ہوں۔ چینل کا ایڈورٹائزنگ ڈپارٹمنٹ پروگرامنگ ڈپارٹمنٹ پر دباؤ ڈالتا ہے، اور یہ دباؤ پھر شو کی پراڈکشن ٹیم پر منتقل کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہم وہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جو ہم نہیں کرنا چاہتے۔ ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔‘

ستم ظریفی یہ ہے کہ ناظرین کی تعداد مانیٹر کرنے کے نظام خامیوں سے پاک نہیں۔ ان پر اکثر اوقات ناقابلِ بھروسہ ہونے کا الزام لگتا ہے۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ پورے ملک میں ایسے صرف چند سو میٹر ہی لگے ہوئے ہیں، وہ بھی صرف ایک ہی کمپنی کے زیرِ انتظام ہیں۔

ایک آن ایئر مقابلہ حسن — بشکریہ فیس بک

ریٹنگز کی موجودہ فراہم کنندہ کمپنی میڈیا لاجک نے ناظرین کے اعداد و شمار کے حصول کے لیے ملک بھر میں 900 میٹر نصب کر رکھے ہیں۔ کیا یہ واقعی ایسے ملک کی حقیقی نمائندگی ہے جس کی آبادی 20 کروڑ سے زائد ہے؟ جواب ہے بالکل نہیں۔

میڈیا لاجک کے 2 مرکزی کلائنٹس ہیں: ٹی وی چینلز اور ایڈورٹائزرز۔ میڈیا لاجک جو ریٹنگز فراہم کرتی ہے وہ درحقیقت براڈکاسٹرز اور ایڈورٹائزرز کے درمیان کرنسی کا کام دیتی ہے۔

تو پھر براڈکاسٹرز اور ایڈورٹائزرز میڈیا لاجک پر اتنا بھروسہ کیوں کرتے ہیں جبکہ ڈیٹا فراہم کرنے والے دیگر ادارے بھی موجود ہیں، مثلاً پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی لمیٹڈ (پی ٹی سی ایل) جو کہ اپنے کیبل ٹی وی نیٹ ورک سے منسلک تقریباً 50 ہزار گھرانوں کا ڈیٹا دے سکتی ہے؟ میڈیا لاجک کے چیف ایگزیکٹیو سلمان دانش کہتے ہیں کہ ’میڈیا لاجک وہ واحد ڈیٹا پرووائیڈر ہے جس کی جانچ پڑتال خود براڈکاسٹ انڈسٹری کرتی ہے۔ انڈسٹری جانتی ہے کہ ہم قابلِ اعتبار ہیں۔‘


اسلام آباد کے سیکٹر جی 8 میں پیمرا کا ہیڈ آفس اس بات کی عمدہ مثال ہے کہ کس طرح ماربل اور منعکس کرنے والے شیشے سے آنکھوں کو لبھانے والی عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے۔ مارچ کے ایک دن دوپہر کے 3 بج رہے ہیں اور عمارت کا ماربل کا فرش ایسے چمک رہا ہے جیسے اسے ابھی ابھی صاف کیا گیا ہو۔ استقبالیے کی دیوار پر قائدِ اعظم محمد علی جناح کا پورٹریٹ لٹک رہا ہے اور کونوں میں منی پلانٹس رکھے ہیں تاکہ خاکستری رنگ کے اندرونی حصے کو تھوڑا سرسبز بنایا جا سکے۔

عمارت کی بالائی منزلوں میں سے ایک میں پیمرا کا میڈیا اینڈ پبلک ریلیشنز ڈپارٹمٹ موجود ہے۔ وہاں ایک کیوبیکل میں ماہم علی خان تشریف رکھتی ہیں۔ وہ اس ڈپارٹمنٹ کی سربراہ ہیں۔

مارننگ شوز میں نامناسب اور بھونڈی حرکات پر ایکشن نہ لینے کی توجیہہ پیش کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ پیمرا صرف اس وقت نوٹس لیتا ہے جب اس کے ضابطہ اخلاق میں موجود کوئی قواعد و ضوابط توڑے جائیں۔‘

یہ ضابطہ اخلاق صرف مارننگ شوز سے متعلق نہیں ہے۔ اس کا اطلاق پاکستان کے تمام الیکٹرانک میڈیا پر ہوتا ہے جس میں نجی ٹی وی چینل، کیبل آپریٹرز اور نجی ریڈیو اسٹیشن شامل ہیں۔ اس ضابطہ اخلاق کے تحت کچھ چیزیں قابلِ گرفت ہیں جن میں ایسا مواد شامل ہے جو اسلامی اقدار کے خلاف ہو، ناشائستہ یا بے ہودہ ہو، کسی گروہ یا نسل کے خلاف نفرت کو ابھارتا ہو، نظریہ پاکستان اور بانیانِ پاکستان کے تصورات کو چیلنج کرتا ہو۔

مئی 2017ء کے اوائل میں بالخصوص مارننگ شوز کے لیے نئے ضوابط تیار کیے گئے تھے۔ صنم کے مارننگ شو کے پروڈیوسر ریحان احمد ان ضوابط کی یوں تشریح کرتے ہیں کہ ’اگر آپ ساس کا نکتہ نظر بیان کر رہے ہیں تو آپ کو بہو کا نکتہ نظر بیان کرنا ضروری ہے۔ اگر آپ اپنے شوہر کی شکایت کرنے والی خاتون دکھا رہے ہیں، تو آپ کو شوہر کا مؤقف بھی دکھانا ہوگا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ مارننگ شوز ایسی کوئی چیز نشر نہیں کرسکتے جس سے معاشرے میں افراتفری، پریشانی یا نفسیاتی مسائل کو فروغ ملے۔ کالا جادو، آسیب نکالنا اور جنات کے بارے میں بحثوں پر مکمل پابندی ہے۔

کچھ شوز اور میزبانوں کو نئے ضوابط کے نفاذ کے بعد سے سزائیں بھی دی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر جون 2017ء میں پیمرا نے اپنے مارننگ شو میں ’قائدِ اعظم کی توہین‘ کرنے پر ساحر لودھی پر جرمانہ عائد کردیا۔

کچھ دیگر میزبانوں کو حکومت کے مختلف اداروں کی جانب سے ایکشن کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ صنم کو حال ہی میں ایک نوجوان لڑکی کے اغواء سے متعلق بیان واپس لینے کے لیے کہا گیا۔ ان کے شو کے پروڈیوسر احمد کہتے ہیں، ’مجھے رینجرز کی جانب سے کال آئی۔ ان کا مؤقف تھا کہ یہ واقعہ پرانا تھا مگر شو میں ایسے زیرِ بحث لایا گیا تھا جیسے کہ یہ کراچی میں امن و امان کی موجودہ صورتحال کا عکاس ہو۔‘ احمد کہتے ہیں کہ ’میں نے گفتگو سے قبل معلومات کی تصدیق نہ کرنے پر صنم کی جانب سے معافی مانگی۔ [مگر پھر بھی] رینجرز چاہتے تھے کہ صنم اپنے شو میں اس حوالے سے وضاحت کریں، چنانچہ ہم نے یہ دو دن بعد کیا۔‘

یہ تو ایک خصوصی کیس ہے۔

مارننگ شو میزبان انوشے اشرف — محمد علی، وائٹ اسٹار

عموماً حکام مارننگ شوز کے خلاف از خود ایکشن نہیں لیتے۔ جہاں تک پیمرا کا تعلق ہے تو یہ ضابطہ اخلاق اور قواعد کی خلاف ورزی کے حوالے سے ٹی وی ناظرین پر منحصر ہے۔ ماہم کہتی ہیں کہ ’ہم عوامی شکایات کے بعد ایکشن لیتے ہیں [کیونکہ] ہمارے پاس مارننگ شوز کو مانیٹر کرنے کا مکینزم موجود نہیں ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ پیمرا کے پاس درحقیقت نشر ہونے والی تمام چیزوں کو مانیٹر کرنے کی ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ ’ہمارے پاس مانیٹرنگ ڈپارٹمنٹ ہے جو 24 گھنٹے پورا ہفتہ 90 ٹی وی چینلز پر نظر رکھتا ہے مگر یہ تمام نیوز چینلز ہیں۔‘

اور اگر کبھی ایکشن لیا بھی جائے، جو کہ نایاب بات ہے، تو اس کا خودکار انداز میں نفاذ نہیں ہوجاتا۔ ماہم کے مطابق مختلف چینلز کے خلاف 500 سے زیادہ مقدمات موجود ہیں مگر مختلف عدالتوں نے انہیں التواء میں ڈال رکھا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہم کسی چینل پر 10 لاکھ روپے سے زیادہ کا جرمانہ نہیں کرسکتے، مگر زیادہ تر چینلز یہ چھوٹی سی رقم بھی ادا نہیں کرتے اور عدالت سے اسٹے آرڈر لے آتے ہیں۔‘

ہما عامر شاہ نے ایک براڈکاسٹ صحافی کے طور پر تربیت حاصل کی اور وہ ایک دہائی سے ٹی وی چینلز پر آ رہی ہیں۔ ان کے کریڈٹ پر پاکستان کے پہلے انگلش مارننگ شو کی میزبانی کرنا بھی ہے۔ آج کل وہ ایک مشہور نیوز چینل پر مارننگ شو کی شریک میزبان ہیں۔

ان کے شو کا نسبتاً سادہ سا سیٹ کراچی کے آئی آئی چندریگر روڈ کی ایک عمارت میں قائم ہے اور یہاں حاضرین نہیں آتے۔ شو میں لائیو فون کالز بھی وصول نہیں کی جاتیں۔

گزشتہ سردیوں کی ایک صبح ہما نے سیدھی پینٹس کے ساتھ ایک اے لائن قمیض پہن رکھی ہے، جو کہ دیگر مارننگ شو میزبانوں کے زیب تن کیے گئے عروسی جوڑوں کے بالکل متضاد ہے۔ اس کے علاوہ وہ بیوٹی ٹپس یا شادی کے جوڑوں پر بحث کرنے کے بجائے مختلف موضوعات چنتی ہیں جن میں سیاست، معیشت، صحت اور غذائیت شامل ہے۔ ہما کہتی ہیں کہ ’میں ایسا مواد پیش کرنے کی کوشش کرتی ہوں جس کے بارے میں مجھے لگتا ہے کہ ناظرین کو آگاہ ہونا چاہیے۔ صرف تفریحی خبریں یا کھانا پکانا آپ کے لیے کوئی فائدہ مند نہیں ہے۔‘

وہ اکثر سیلیبریٹیز کو بھی مدعو کرتی ہیں، ناظرین کی تفریح کے لیے نہیں بلکہ ان کا کام ابھارنے کے لیے۔ دیگر شوز کے برعکس ان کے شو میں سیلیبریٹیز کو ان کے وقت کے لیے ادائیگی نہیں کی جاتی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے مہمان ہمارے شو میں اپنی مرضی سے یہ جانتے ہوئے بھی آتے ہیں کہ انہیں کوئی مالی فائدہ نہیں ہوگا۔‘

اس کے علاوہ دیگر میزبانوں کے برعکس ہما کو یقین ہے کہ ریٹنگز ان کے شو کے مواد کا فیصلہ نہیں کرتیں، اور ان کے شو کے سینیئر پروڈیوسر عرفان اسحٰق اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ان کی پروڈکشن ٹیم ریٹنگز پر کوئی بھی توجہ دیے بغیر وہی کرتی ہے جو وہ کرنا چاہتی ہے۔ ’ہمارے میڈیا نے مارننگ شوز کے تناظر کو بہت محدود کردیا ہے۔ وہ صرف شادیاں، میک اپ اور پکانے پر ہی گفتگو کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے ایسا مارننگ شو متعارف کروانے کا فیصلہ کیا جس میں سیاست، ماحولیات، خواتین کے حقوق، چھاتی کے سرطان سے متعلق آگاہی، ڈیجیٹل تحفظ، انٹرنیٹ کی آزادی اور سیلیبریٹیز سے متعلق اور تفریحی خبریں شامل ہوں۔ پھر ہمیں ریٹنگز بھی مل گئیں۔‘

اسحٰق اس عمومی مفروضے کی بھی نفی کرتے ہیں کہ صرف خواتین مارننگ شوز دیکھتی ہیں۔ ’ہم نے کئی رجحانات کا مطالعہ کیا ہے اور جانا ہے کہ ہمارے شوز مرد بھی دیکھتے ہیں۔‘


کراچی کے ویسٹ وہارف علاقے کے قریب ایک مارننگ شو کے سیٹ میں داخل ہونے پر تیار ہوتے ہوئے ناشتہ کی خوشبو ہر جگہ موجود ہے۔ ایک مہمان شیف ناظرین کو بتا رہے ہیں کہ کس طرح پالک کے ساتھ ایک چیز آملیٹ بنایا جاتا ہے جبکہ میزبان انوشے اشرف ان مختلف ڈشز کے بارے میں بتا رہی ہیں جو ناشتے کے وقت بنائی جا سکتی ہیں۔

شو کی ایگزیکٹیو پروڈیوسر کرن یزدانی کہتی ہیں، ’ہم ریٹنگز پر توجہ نہیں دیتے، ہمارے شو میں حاضرین نہیں ہوتے اور نہ ہی ہم سیٹ پر شادیاں کرواتے ہیں۔ اس شو کا تصور یہ ہے کہ کرداروں کو ایک ماحول فراہم کیا جائے اور قابلِ یقین کہانی بنائی جائے۔ انوشے ایک ترقی پسند ملازمت پیشہ خاتون کا کردار ادا کرتی ہیں جو کہ ایک دوست اور ایک ملازمہ کے ساتھ گھر شیئر کرتی ہے۔ آنے والے مہمان ایسے اداکاری کرتے ہیں جیسے وہ کہانی کا حصہ ہوں۔‘

شو کے دوسرے سیزن میں انوشے اور ان کی دوست نے ایک کیفے خریدا ہے۔ کرن، جو کہ ایک ایڈورٹائزنگ فرم کے لیے کری ایٹیو ڈائریکٹر رہ چکی ہیں، بتاتی ہیں کہ ’چنانچہ ہم نے سیٹ کی ڈیکوریشن کو اسی طرح تبدیل کیا ہے۔‘

وہ مانتی ہیں کہ ناظرین کو دوسرے مارننگ شوز سے کچھ مختلف دینا ضروری ہے۔ ’میرا سوال ہے کہ ہم ناظرین کو اسی طرح کا مواد کیوں دکھائے جا رہے ہیں؟‘ وہ جو شو پروڈیوس کرتی ہیں ان میں اکثر و بیشتر بالخصوص خواتینِ خانہ کے اور عموماً خواتین کے مسائل اجاگر کیے جاتے ہیں۔ اس میں ایسے کئی موضوعات پر بھی بحث کی جاتی ہے جنہیں شجرِ ممنوعہ سمجھا جاتا ہے، جبکہ مشہور فیس بک گروپس پر ہونے والی بحثوں پر بھی بات کی جاتی ہے۔

کرن اور ان کی ٹیم یقینی بناتے ہیں کہ شو اپنی مرکزی اقدار سے جڑا رہے۔ ’ہمیں اشتہارات کی ایک پیشکش آئی جس میں انوشے کو شو کے دوران ایک وائٹننگ کریم استعمال کرنے کا کہا گیا تھا مگر میں نے منع کر دیا۔‘ وہ جھنجھلاہٹ کے انداز میں سر ہلاتے ہوئے کہتی ہیں، ’میں یہ گورے کالے کے کلچر کو پروان نہیں چڑھاتی۔‘

اس کے علاوہ کرن یہ بھی نہیں مانتیں کہ عوام کو صرف فیشن اور بیوٹی ہی پسند ہے۔ ان کے شو کا چوتھی بلند ترین ریٹنگ حاصل کرنا ان کے اس مؤقف کی تصدیق کرتا ہے۔

مستنصر حسین تارڑ — عائشہ ویلانی، وائٹ اسٹار

گہرے بینگنی رنگ کے کُرتے میں ملبوس مستنصر حسین تارڑ لاہور میں اپنی رہائش گاہ کے دروازے پر کھڑے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں گرمجوشی دکھائی دے رہی ہے۔ وہ خوش آمدید کہنے کے انداز میں بانہیں پھیلاتے ہیں اور نرم سی آواز میں سلام کرتے ہیں۔

جو لوگ ان کے مارننگ شو 'صبح بخیر' میں ان کی آواز میں ’اسلام و علیکم پاکستان‘ سنتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں، وہ انہیں چاچا جی کے نام سے جانتے ہیں۔ شو فروری 1988ء میں شروع ہوا تھا اور اس میں ورزش، حالاتِ حاضرہ، موسم کے حالات، مذہبی موضوعات، کارٹونز اور زندگی سے متعلق دیگر موضوعات پر بات کی جاتی تھی۔

تارڑ بتاتے ہیں کہ ’1980ء کی دہائی میں صبح کے وقت ٹی وی دیکھنے کا رجحان نہیں ہوتا تھا۔‘ اس وقت پاکستان کے پاس صرف ایک سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی ہوا کرتا تھا جو شام 4 بجے سے لے کر رات 12 بجے تک چلتا تھا۔ اس میں کبھی کبھار ہاکی یا کرکٹ میچوں کی براہِ راست نشریات بھی آیا کرتی تھیں۔ تارڑ کہتے ہیں کہ ’ہم نے پھر بھی صبح 7 سے 9 بجے کے درمیان مارننگ شو لانچ کرنے کا فیصلہ کیا جس کا خیال ہمیں دوسرے ممالک کے مارننگ شوز دیکھ کر آیا تھا۔ مقصد مواد کو ہلکا اور مختصر رکھنا تھا تاکہ لوگ اسے چلتے پھرتے اور اسکول و دفتر کے لیے تیار ہوتے ہوئے دیکھ سکیں۔‘

شو کامیاب رہا۔ پی ٹی وی کو اس سے متعلق اتنی ڈاک موصول ہوئی کہ اسلام آباد میں اس کے ہیڈ کوارٹرز کا ایک کمرہ لوگوں کے خطوط سے بھرا رہتا تھا۔

تارڑ کہتے ہیں، ’مجھے لگتا ہے کہ لوگوں کو میرا کمپیئرنگ کا غیر رسمی انداز پسند آتا تھا۔‘ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ ’لوگ سمجھتے تھے کہ میں ان سے بات کر رہا ہوں۔ کبھی کبھی میں ایسے ہی کہہ دیتا، 'بیٹا، اپنے منہ سے دودھ صاف کرلو۔‘ اگر 10 لاکھ بچے بھی مجھے دیکھ رہے ہوتے تو مجھے معلوم تھا کہ کم از کم کچھ ہزار کے ہونٹوں پر تو دودھ رہ ہی گیا ہوگا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’میرا دوستانہ رویہ کافی منفرد سمجھا جاتا تھا کیونکہ ہمارے میزبانوں کا لکڑی جیسا سخت رویہ ہوا کرتا تھا اور وہ غیر رسمی ہونا پسند نہیں کرتے تھے۔‘ یہ سب بتاتے ہوئے تارڑ کی آنکھوں میں ماضی کی یاد کی جھلک نظر آتی ہے۔ ’ایک دفعہ میں نے نشریات کے دوران چھینک مار دی۔ میں ویسے ہی کیمرا کی جانب لوٹا اور کہا، 'بھئی میں روبوٹ تھوڑی ہوں، کیا ہوا اگر میں بیمار ہوں تو؟‘


ایک دن قرۃ العین علی ایک لائیو مارننگ شو کی میزبانی کر رہی تھیں جب ان کے ساتھ بیٹھی نیوز اینکر کرسی میں خرابی کی وجہ سے توازن کھو بیٹھیں۔ میزبان نے اس پر پردہ ڈالنے کے لیے کوئی بھی کوشش نہیں کی۔ اس کے برعکس انہوں نے کیمرا پر ہی تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’پتہ نہیں کب کون اپنی کرسی گنوا دے۔‘

اسی شام بینظیر بھٹو کو وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ اردو روزنامہ نوائے وقت نے اگلی صبح ایک بڑی خبر شائع کی۔ اس کی سرخی تھی، ’کرسی کھسک گئی‘ اور اس میں کہا گیا تھا کہ قرۃ العین علی نے اپنے شو میں وزیرِاعظم کی برطرفی کی پیشگوئی کردی تھی۔ کسی زمانے میں مارننگ شوز کی اس قدر کشش ہوا کرتی تھی۔

قرۃ العین علی پی ٹی وی کے پہلے مارننگ شو میں تارڑ کی شریک میزبان تھیں۔ اکثر اوقات انہیں پھپھو جی کہا جاتا ہے مگر انہیں یہ کچھ خاص پسند نہیں۔ وہ ان اولین پاکستانی خواتین میں سے ہیں جو ٹی وی کی لائیو نشریات میں آئیں۔ میزبان بننے سے قبل وہ ٹیچر اور ریڈیو پاکستان کے لیے انگلش نیوز ریڈر رہ چکی تھیں۔

وہ سیٹ پر کسی ڈیزائنر کے اسپانسر کردہ جوڑے کے بجائے اپنے ہی کپڑے پہن کر آیا کرتی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ جنرل ضیاء الحق اکثر مارننگ شو دیکھا کرتے اور میزبان کے زیبِ تن کیے گئے کپڑوں کے متعلق پی ٹی وی کو اپنے تبصرے بھیجا کرتے تھے۔ ’ایک دن تو میں اس مداخلت سے اتنا تنگ آگئی کہ میں نے ان سے کہا کہ وہ خود آ کر شو کرلیں۔‘

قرۃ العین بتاتی ہیں کہ کس طرح ماضی میں ہر مارننگ شو کا مواد مختلف ہوا کرتا تھا جس کی وجہ سے میزبان کو اس کے لیے خاصی تیاری کرنی پڑتی تھی۔ وہ پوری رات جاگ کر ان موضوعات پر ریسرچ کیا کرتی تھیں جو کہ انہیں اگلی صبح پیش کرنے ہوتے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’آج کل تو میزبان بغیر کسی تیاری اور معلومات کے بولتے رہتے ہیں۔ وہ صرف سیٹ ڈیکوریٹ کرتے ہیں اور کچھ گلیمر، کچھ میوزک اور بہت سارے شور کا اضافہ کر دیتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ آج کل کے میزبان بلند آواز اور بدتہذیب ہیں۔ وہ سننے کی تربیت نہیں رکھتے اور اکثر اپنے مہمانوں کی گفتگو میں مداخلت کرتے ہیں۔ اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر انٹرویو دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ’ان میں تہذیب، علم، معلومات، اور میڈیا اخلاقیات کی فہم کی کمی ہے کہ شو کیسے آگے بڑھایا جاتا ہے۔ آج کے میزبان وضع قطع کے اعتبار سے اچھے دکھائی دیتے ہیں مگر جب وہ بولنا شروع کرتے ہیں تو سب کچھ برباد ہوجاتا ہے۔’

سیدھے کندھوں اور اونچے سر کے ساتھ صوفے پر متمکن قرۃ العین اعتماد اور وقار کا ایک حیران کن امتزاج ہیں۔ جب وہ بولتی ہیں تو الفاظ واضح انداز میں معلوم ہوتے ہیں اور ہر حرف صاف سنائی دیتا ہے۔ انہیں فکر ہے کہ مارننگ شوز میں زبان و بیان پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ ’ہاں، ناظرین کی ضروریات بدل گئی ہیں مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپ تلفظ پر بھی توجہ نہیں دے سکتے۔‘

قرۃ العین کہتی ہیں کہ 1980ء میں معاشرے اور ریاست پر ضیاء کی آمرانہ گرفت کی وجہ سے میڈیا کو بمشکل ہی آزادی حاصل تھی مگر ان وقتوں کے میزبان پھر بھی اسکرین پر اپنی موجودگی بنائے رکھنے میں کامیاب رہتے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ آج کے میزبانوں کے پاس اتنی آزادی ہے مگر یہ مایوس کن ہے کہ وہ اپنے اس اثر و رسوخ کو تعمیری انداز میں استعمال کرنے کے بجائے کمرشلائیزیشن کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں۔

طلعت حسین — تنویر شہزاد، وائٹ اسٹار

90ء کی دہائی کے اواخر میں پی ٹی وی کے پروگرام روشن پاکستان کے ایک سیگمینٹ سویرے سویرے کی میزبانی طلعت حسین کیا کرتے تھے۔ آج کل وہ جیو نیوز پر شام کے وقت ٹاک شو کی میزبانی کرتے ہیں۔

مارچ کے ایک دن وہ اسلام آباد کے بلیو ایریا میں اپنی بڑی سی ڈیسک کے پیچھے بیٹھے ہیں۔ ان کی گرین ٹی شرٹ ان کے نیلے رنگ کے دفتر میں نمایاں محسوس ہو رہی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ 'اس دور میں لائیو شو میں حالاتِ حاضرہ پر تو بالکل بات نہیں کی جاتی تھی کیونکہ کچھ بھی غلط ہوسکتا تھا۔ اس کے علاوہ سرکاری ٹی وی میں بطور صحافی کام کرنے کو معمولی سمجھا جاتا تھا، اور اس میں کوئی پیسے بھی نہیں تھے۔'

وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح اس شو کا حصہ بننے کا ان کا فیصلہ آسان نہیں تھا اور پھر انہیں ایک اور فکر تھی وہ یہ کہ شو کے پروڈیوسر نے ناکامی کی ٹھان رکھی تھی۔

مگر یہ شو کامیاب ہوا۔ طلعت بتاتے ہیں کہ 'ہمارا کام یہ تھا کہ ہم نیم نرم مواد چلائیں۔' ہدایات یہ تھیں کہ سیاسی تنازعات سے دور رہا جائے، لوگوں کی حوصلہ شکنی نہ کی جائے، ٹیلنٹ کو ابھارا جائے، عزم و کامیابی کی کہانیوں پر توجہ دی جائے۔ 'ہم جو مواد پیش کرتے تھے وہ تعمیری تھا لیکن بھڑکیلا نہیں۔ حقیقی لوگ بھڑکیلے نہیں ہوتے، یہ حقیقت ہے۔'

یوٹیوب پر موجود سویرے سویرے کی ویڈیو کلپس میں سے ایک میں طلعت ایک سادہ سے سیٹ پر موجود ہیں۔ کیمرا کا فوکس صرف اینکر اور مہمان پر ہے۔ دیکھنے کو تو اس میں کچھ زیادہ نہیں مگر بات چیت آپ کی توجہ حاصل کر لیتی ہے۔ طلعت اپنی کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے کہتے ہیں 'ہمارے پاس کوئی چمک دھمک والی چیزیں نہیں تھیں۔ اس شو میں واحد دلچسپ چیز گفتگو ہوتی تھی۔'

توثیق حیدر ماضی کے ایک اور مارننگ شو میزبان ہیں۔ ان کا شو، جو 2004ء سے 2009ء تک جاری رہا، کی ویڈیو کلپس یوٹیوب پر کم ہی ملتی ہیں۔ ایک کلپ میں وہ علی معین نوازش کا انٹرویو کر رہے ہیں جنہوں نے اپنے اے لیول امتحانات میں 21 اے گریڈ حاصل کرکے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں جگہ بنائی تھی۔ ایک کچن ٹیبل، کرسیوں اور دو گلدانوں پر مشتمل ایک سادہ سے سیٹ پر بیٹھے حیدر گرمجوش اور خیر مقدمی انداز لیے ہوئے ہیں۔ مہمان اور میزبان کے درمیان کیمسٹری دوستانہ اور عزت پر مبنی ہے۔ پس منظر میں کوئی ساؤنڈ ٹریک یا شور شرابہ نہیں، اور توجہ کا مرکز صرف بولنے والا ہے۔ انٹرویو بذاتِ خود متاثر کن اور سوچنے پر مجبور کر دینے والا ہے۔ حیدر پوچھتے ہیں، "کیا اونچے گریڈز حاصل کرنے کی دوڑ علم حاصل کرنے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے؟'

ان کا ماننا ہے کہ موجودہ دور کے شوز میں نوجوانوں اور بچوں پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ فون پر انٹرویو دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ 'جب میں نوجوان تھا تو ایسے پروگرامز ہوا کرتے تھے جن میں کیریئر اور تعلیم کے حوالے سے مشورے دیے جاتے تھے۔ ٹی وی والدین کی طرح تھا اور اس کا ہماری ذہنیت پر مثبت اثر پڑتا تھا۔'

مگر وہ پرانے اور نئے شوز کے درمیان ایک اہم فرق کی نشاندہی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 'مارننگ شوز اور بریک فاسٹ شوز کے درمیان فرق کرنا بہت ضروری ہے۔ جن شوز کا ہم حصہ تھے، وہ بریک فاسٹ شوز تھے جو صبح 7 سے 9 کے درمیان نشر کیے جاتے تھے اور ان کا ہدف عمومی ناظرین ہوا کرتے تھے۔ صبح 9 سے 11 کے شوز جو ہم آج کل دیکھتے ہیں وہ مارننگ شوز ہیں جن کا ہدف خواتین ہیں۔'

2000ء سے 2002ء کے بیچ میں پی ٹی وی پر نشر ہونے والے پروگرام نیوز مارننگ کے میزبان ظفر اللہ خان ماضی اور حال کے درمیان فرق کی ایک اور توجیہہ پیش کرتے ہیں۔ "ہمارے وقت میں پی ٹی وی کی اجارہ داری تھی اور یہ وہ سب کچھ پیش کرتا تھا جو وہ کرنا چاہتا تھا۔ اب تو آپ کے سامنے آپشنز کا بوفے لگا ہوا ہے اور نشر ہونے والی ہر چیز کی بھوک موجود ہے۔'

ایک سرکاری تھنک ٹینک پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پارلیمنٹری افیئرز کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے اپنے اسلام آباد آفس میں انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'آپ تفریح کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ پرنٹ میڈیا میں بھی تو ٹیبلائیڈ اخبارات ہوتے ہیں۔'

مگر اپنے کشادہ دفتر میں فائلوں سے بھرے ہوئے لکڑی کے میز پر پیچھے براجمان ظفر اللہ کا کہنا ہے کہ مارننگ شوز کا ایک پہلو ایسا ہے جو انہیں بہت پریشان کرتا ہے: یعنی مواد کو اتنا ڈرامائی بنا دینا جس سے یہ محسوس ہو کہ ہم ایک مصنوعی حقیقت کو دیکھ رہے ہیں۔ 'ٹی وی پر نظر آنے والا معاشرے کا یہ حصہ حقیقت میں کہاں ہے؟'


ترجمہ: بلال کریم مغل ۔ انگلش میں پڑھیں۔


فاطمہ شاہین نیازی ہیرالڈ کی اسٹاف ممبر ہیں۔


یہ مضمون ماہنامہ ہیرالڈ کے جون 2018 کے شمارے میں شائع ہوا۔ مزید پڑھنے کے لیے سبسکرائب کریں۔

اضافی رپورٹنگ از منال فہیم خان۔

فاطمہ شاہین نیازی

فاطمہ شاہین نیازی ہیرالڈ کی اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔