مارننگ شو میزبان انوشے اشرف — محمد علی، وائٹ اسٹار
عموماً حکام مارننگ شوز کے خلاف از خود ایکشن نہیں لیتے۔ جہاں تک پیمرا کا تعلق ہے تو یہ ضابطہ اخلاق اور قواعد کی خلاف ورزی کے حوالے سے ٹی وی ناظرین پر منحصر ہے۔ ماہم کہتی ہیں کہ ’ہم عوامی شکایات کے بعد ایکشن لیتے ہیں [کیونکہ] ہمارے پاس مارننگ شوز کو مانیٹر کرنے کا مکینزم موجود نہیں ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ پیمرا کے پاس درحقیقت نشر ہونے والی تمام چیزوں کو مانیٹر کرنے کی ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ ’ہمارے پاس مانیٹرنگ ڈپارٹمنٹ ہے جو 24 گھنٹے پورا ہفتہ 90 ٹی وی چینلز پر نظر رکھتا ہے مگر یہ تمام نیوز چینلز ہیں۔‘
اور اگر کبھی ایکشن لیا بھی جائے، جو کہ نایاب بات ہے، تو اس کا خودکار انداز میں نفاذ نہیں ہوجاتا۔ ماہم کے مطابق مختلف چینلز کے خلاف 500 سے زیادہ مقدمات موجود ہیں مگر مختلف عدالتوں نے انہیں التواء میں ڈال رکھا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہم کسی چینل پر 10 لاکھ روپے سے زیادہ کا جرمانہ نہیں کرسکتے، مگر زیادہ تر چینلز یہ چھوٹی سی رقم بھی ادا نہیں کرتے اور عدالت سے اسٹے آرڈر لے آتے ہیں۔‘
ہما عامر شاہ نے ایک براڈکاسٹ صحافی کے طور پر تربیت حاصل کی اور وہ ایک دہائی سے ٹی وی چینلز پر آ رہی ہیں۔ ان کے کریڈٹ پر پاکستان کے پہلے انگلش مارننگ شو کی میزبانی کرنا بھی ہے۔ آج کل وہ ایک مشہور نیوز چینل پر مارننگ شو کی شریک میزبان ہیں۔
ان کے شو کا نسبتاً سادہ سا سیٹ کراچی کے آئی آئی چندریگر روڈ کی ایک عمارت میں قائم ہے اور یہاں حاضرین نہیں آتے۔ شو میں لائیو فون کالز بھی وصول نہیں کی جاتیں۔
گزشتہ سردیوں کی ایک صبح ہما نے سیدھی پینٹس کے ساتھ ایک اے لائن قمیض پہن رکھی ہے، جو کہ دیگر مارننگ شو میزبانوں کے زیب تن کیے گئے عروسی جوڑوں کے بالکل متضاد ہے۔ اس کے علاوہ وہ بیوٹی ٹپس یا شادی کے جوڑوں پر بحث کرنے کے بجائے مختلف موضوعات چنتی ہیں جن میں سیاست، معیشت، صحت اور غذائیت شامل ہے۔ ہما کہتی ہیں کہ ’میں ایسا مواد پیش کرنے کی کوشش کرتی ہوں جس کے بارے میں مجھے لگتا ہے کہ ناظرین کو آگاہ ہونا چاہیے۔ صرف تفریحی خبریں یا کھانا پکانا آپ کے لیے کوئی فائدہ مند نہیں ہے۔‘
وہ اکثر سیلیبریٹیز کو بھی مدعو کرتی ہیں، ناظرین کی تفریح کے لیے نہیں بلکہ ان کا کام ابھارنے کے لیے۔ دیگر شوز کے برعکس ان کے شو میں سیلیبریٹیز کو ان کے وقت کے لیے ادائیگی نہیں کی جاتی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے مہمان ہمارے شو میں اپنی مرضی سے یہ جانتے ہوئے بھی آتے ہیں کہ انہیں کوئی مالی فائدہ نہیں ہوگا۔‘
اس کے علاوہ دیگر میزبانوں کے برعکس ہما کو یقین ہے کہ ریٹنگز ان کے شو کے مواد کا فیصلہ نہیں کرتیں، اور ان کے شو کے سینیئر پروڈیوسر عرفان اسحٰق اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ان کی پروڈکشن ٹیم ریٹنگز پر کوئی بھی توجہ دیے بغیر وہی کرتی ہے جو وہ کرنا چاہتی ہے۔ ’ہمارے میڈیا نے مارننگ شوز کے تناظر کو بہت محدود کردیا ہے۔ وہ صرف شادیاں، میک اپ اور پکانے پر ہی گفتگو کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے ایسا مارننگ شو متعارف کروانے کا فیصلہ کیا جس میں سیاست، ماحولیات، خواتین کے حقوق، چھاتی کے سرطان سے متعلق آگاہی، ڈیجیٹل تحفظ، انٹرنیٹ کی آزادی اور سیلیبریٹیز سے متعلق اور تفریحی خبریں شامل ہوں۔ پھر ہمیں ریٹنگز بھی مل گئیں۔‘
اسحٰق اس عمومی مفروضے کی بھی نفی کرتے ہیں کہ صرف خواتین مارننگ شوز دیکھتی ہیں۔ ’ہم نے کئی رجحانات کا مطالعہ کیا ہے اور جانا ہے کہ ہمارے شوز مرد بھی دیکھتے ہیں۔‘
کراچی کے ویسٹ وہارف علاقے کے قریب ایک مارننگ شو کے سیٹ میں داخل ہونے پر تیار ہوتے ہوئے ناشتہ کی خوشبو ہر جگہ موجود ہے۔ ایک مہمان شیف ناظرین کو بتا رہے ہیں کہ کس طرح پالک کے ساتھ ایک چیز آملیٹ بنایا جاتا ہے جبکہ میزبان انوشے اشرف ان مختلف ڈشز کے بارے میں بتا رہی ہیں جو ناشتے کے وقت بنائی جا سکتی ہیں۔
شو کی ایگزیکٹیو پروڈیوسر کرن یزدانی کہتی ہیں، ’ہم ریٹنگز پر توجہ نہیں دیتے، ہمارے شو میں حاضرین نہیں ہوتے اور نہ ہی ہم سیٹ پر شادیاں کرواتے ہیں۔ اس شو کا تصور یہ ہے کہ کرداروں کو ایک ماحول فراہم کیا جائے اور قابلِ یقین کہانی بنائی جائے۔ انوشے ایک ترقی پسند ملازمت پیشہ خاتون کا کردار ادا کرتی ہیں جو کہ ایک دوست اور ایک ملازمہ کے ساتھ گھر شیئر کرتی ہے۔ آنے والے مہمان ایسے اداکاری کرتے ہیں جیسے وہ کہانی کا حصہ ہوں۔‘
شو کے دوسرے سیزن میں انوشے اور ان کی دوست نے ایک کیفے خریدا ہے۔ کرن، جو کہ ایک ایڈورٹائزنگ فرم کے لیے کری ایٹیو ڈائریکٹر رہ چکی ہیں، بتاتی ہیں کہ ’چنانچہ ہم نے سیٹ کی ڈیکوریشن کو اسی طرح تبدیل کیا ہے۔‘
وہ مانتی ہیں کہ ناظرین کو دوسرے مارننگ شوز سے کچھ مختلف دینا ضروری ہے۔ ’میرا سوال ہے کہ ہم ناظرین کو اسی طرح کا مواد کیوں دکھائے جا رہے ہیں؟‘ وہ جو شو پروڈیوس کرتی ہیں ان میں اکثر و بیشتر بالخصوص خواتینِ خانہ کے اور عموماً خواتین کے مسائل اجاگر کیے جاتے ہیں۔ اس میں ایسے کئی موضوعات پر بھی بحث کی جاتی ہے جنہیں شجرِ ممنوعہ سمجھا جاتا ہے، جبکہ مشہور فیس بک گروپس پر ہونے والی بحثوں پر بھی بات کی جاتی ہے۔
کرن اور ان کی ٹیم یقینی بناتے ہیں کہ شو اپنی مرکزی اقدار سے جڑا رہے۔ ’ہمیں اشتہارات کی ایک پیشکش آئی جس میں انوشے کو شو کے دوران ایک وائٹننگ کریم استعمال کرنے کا کہا گیا تھا مگر میں نے منع کر دیا۔‘ وہ جھنجھلاہٹ کے انداز میں سر ہلاتے ہوئے کہتی ہیں، ’میں یہ گورے کالے کے کلچر کو پروان نہیں چڑھاتی۔‘
اس کے علاوہ کرن یہ بھی نہیں مانتیں کہ عوام کو صرف فیشن اور بیوٹی ہی پسند ہے۔ ان کے شو کا چوتھی بلند ترین ریٹنگ حاصل کرنا ان کے اس مؤقف کی تصدیق کرتا ہے۔